ایشیا کے تاج پہ قدم –روداد تاجکستان

یہ تحریر 210 مرتبہ دیکھی گئی

برصغیر کی تاریخ اور جغرافیے کے ارتقاء میں بہت سی قوموں اور خطوں نے حصہ ڈالا ہے۔ ایک وہ وقت بھی تھا جب سرحدوں کی سائینس آج سےیکسر مختلف تھی اور یہ ہرگز ماضی بعید کی بات نہیں بلکہ صدی دو صدی کا ہی قصہ ہے۔ بنگال اور نیپالکو تو خیر برصغیر کا حصہ ہی سمجھیے۔ سرحدوں اور حکومتوں سے بالا تر؛ زبان، ثقافت اور مذہب میں سے کوئی نہ کوئی چیز ان خطوں کو برصغیر سے جوڑے ہی رکھے ہوئے ہے۔ غلامی نے قوم کی سوچ اس قدر غلامانہ کردی ہے کہ آقاؤں کے جانے کے بعد بھی برصغیر پر انگریز اور امریکی اثرات  کی بات بہت زیادہ ہوتی ہے۔ تاریخ کے طالبعلم ایرانی، ترکی اور عربی اثرات پر بھی بات کرتے ہیں مگر کم ذکر ہوتاہے، وسط ایشیا کا۔ سو اب کہ تاجکستان اور اذبکستان کا ویزہ لگوا ڈالا کہ اس قصے کو سمجھا جائے۔ سیالکوٹ کے ہوائی اڈے پر امیگریشن والے نے بنگلہدیش، تھائی لینڈ، نیپال اور عراق کے ویزے دیکھ کر برجستہ کہا کہ آپ “یہاں” ہی پھرتے رہتے ہیں،”وہاں” نہیں جاتے ہیں؟ کیسا نقصان دے رہا ہےبہتا ہوا وقت کہ بنی نوع انسان کییہاں اور وہاں کے خانوں میں بندر بانٹ ہیختم نہیںہو پارہی ہے۔

شہر کا نام دوشنبےیعنی سوموار ہے۔ رات کے دو بجے اکا دکا گاڑیاں سڑکوں پر رواں تھیں۔ ہوٹل کے گرد بلند و بالا عمارات اور یورپی طرز کا بازار دیکھکر لگا کہ کہیں “وہاں” ہی تو نہیں آگئے۔ سو سال پہلے بنے اس شہر  کی نوک پلک یہاں کے باسیوں نے ایسی سنواری ہے کہ جدید ہونے کے باوجود تہذیب سے یتیم نہیں لگتا۔ روسی ہوں کہ تاجک دونوں نے حصہ ڈالا ہے اس شہر کو شہر بنانے اور بنائے رکھنے میں۔ ہاں چونکہ اس خطے میں سائنس تو پلی اور پنپی نہیں لہذا ہر وقت تہذیبیا مذہب کا غلغلہ ہی رہتا ہے۔ اس شہر میںیہ کوشش جابجا نظر آتی ہے کہ اس کو تہذیب سے جوڑا جائے۔ شاید مذہب سے جوڑنے سے زیادہ کارآمد یہ کام لگتا ہےیہاں کے ٹھیکیداروں کو۔ ہمارے ہاں معاملہ یہی ہے مگر تہذیب کی جگہ مذہب آجاتا ہے۔

صبح لینن سٹریٹ سے دورے کا آغاز کیا جو اب ہر گز لینن کے نام سے منسوب نہیں ہے۔  ۱۹۹۱ میں آذادی کے بعد انہوں نے وہی کیا جو ہم نے 1947 میں کیا کہ پہلے جگہوں کے نام بدلے۔ تقدیریں بدلنا شاید نام بدلنے سے کہیںزیادہ مشکل ہوتا ہے۔  ۱۹۳۶ میں روسیوں نے اس سے بھی بڑا کام کیا تھا ، فارسی کو عربی سکرپٹ سے سریلیک سکرپٹ پہ تبدیل کر دیا تھی۔ روسی آئیں تو پڑھ پائیں پر سمجھ نہ پائیں۔ ایرانی آئیں تو سمجھ پائیں پر پڑھ نہ پائیں۔ آقاؤں کا بھی اپنا مزاج اور طریقہ ہوتا ہے عوام کو کنفیوز رکھ کر حکمرانی کے عمل کو آسان بنانے کا۔ پچھلے ۲۰ سال میں بنی بلڈنگز جدید، ہائی رائز اور قدرے سپاٹ ہیں۔ روسی دور کی عمارات فرنچ اور جرمن انداز کی ہیں اور شوخ رنگ ان کی طرز تعمیر میں نمایاں ہیں۔ گائیڈ ہمیں عینی بیبی کے افسانے ملفوظات حاجی گل بابا بیکتاشی کے کردار کا سا ملا جو بیک وقت فلسفی، سیکولر اور تاریخی جبر سے نپٹ کر آگے چلنے کا داعی تھا۔ وسط ایشیائی ممالک کی صفائی کو بھی روسیوراثت بتلایا کیا۔ چہرے مشرقی اور لباس اور ماحول یورپ کا سا تھا۔ ہم روس گئے نہیں سو وہاں سے موازنہ کر نہیں سکتے تھے۔ پرانی لائبریری جو اب سرکاری دفاتر میں بدل چکی ہے، باہر سے اب بھی لائبریری والی شان رکھتی ہے۔ گورکی، امیر خسرو، فردوسی، ٹالسٹائی اور جامی کے مجسمے آویزاں ہیں۔ یہاں کے عوام گئے زمانے کے آقا کو بھی دشمن نہیں گردانتے ہیں۔ علم و ادب روسی ہو یا فارسی، قدر کرتے ہیں۔ اور ہمارے ہاں والا حال نہیں کہ کتاب سے دوری کی بنا پر لائبریری میں تالا پڑا اور دفتر بن گیا ہے۔ جگہ کم پڑ گئی تھی سو سومونی کے مجسمے کے پیچھے آدھ کھلی کتاب کی شکل میں ایک عظیم الشان نئی لائبریری کا قیام ہوگیا۔کئی منزلہ پرشکوہ عمارت کے باہر ادیبوں اور دانشوروں کے مجسمے اور سامنے بہتے فوارے تھے۔ فوارے یہاں اس قدر ہیں کہ انکی تہذیب کا حصہ لگتے ہیں۔ ہلکی بارش میں اسمعیل سمونی کے عظیم الشان مقبرے کی سیڑھیوں پر بیٹھ کر گائیڈ سے خوب مکالمہ ہوا۔

معلوم ہوا کہ اس خوشحالی جو نجانے اصل ہے یا مصنوعی کے پیچھے کچھ ہاتھ سونے اور ایلیمونیم کا ہے اور کچھ زر مبادلہ کا ہے۔ زر مبادلہ ہماری طرح یورپ، امریکہیا گلف سے نہیں بلکہ روس سے آتا ہے۔ ہر دوسرے آدمی کے پاس روسی پاسپورٹ بھی ہے۔ گلف میںیہاں کے لوگوں کی تنخواہوں کا سکیل کم ہےسو لوگ روس جاکر ہی کام کرتے ہیں۔ ہماری غربت کو اسلام آباد،  ڈی ایچ اے، بحریہ اور کنٹونمنٹ ڈھانپتی ہیں،یہاںاصل خوشحالی کا جھونکا ہی ڈھانپتا نظر آتا ہے۔ بہت امیر اور خوشحال  لوگ کم ہیں پر مڈل کلاس کی بہتات ہے اور شایدیہی انکی بہتری کے رازوں میں سے اک راز ہے۔ سڑک پر ٹرام ، بسیں اور ٹیکسیاں رواں دواں تھیں۔ یورپ اور ایران کیونکر نہ یاد آویں۔ ڈھاکہ، کھاٹمنڈو، کراچی، بغداد کہیں بھی ایسا سماں نہیں ہے۔ سبز ٹیکسیاں بجلی پر چلتی ہیں اور پیلی پیٹرول پر ہیں۔ 

اسمعیل سومونی اور اسکے مجسمے کی داستان دلچسپ ہے۔ یہ صاحب نویں اور دسویں صدی کے لگ بھگ وسط ایشیا، برصغیر اور ایران کے بیشتر حصوں کے مطلق العنان تھے۔ تاجکوں کو آذادی کے بعد اپنی جڑوں کو تلاشنے اور تابناک ماضی کو ڈھونڈھ کر ریوائو کرنے کا تاپ چڑھا تھا۔ موجودہ حکمرانوں کو ماضی بھی مرضی کا بھاتا ہے جس سے عوام پر گرفت اور مضبوط ہوسکے چنانچہ جنگجو اور مذہبی لوگ ہی انکا میعار ٹھہرتے ہیں۔ فرغانہ میں پیدا ہوکر بخارا میں مرنے والے اس حاکم کا آج کے تاجکستان سے کتنا تعلق بنتا اور اسکا لاکھوں ڈالر کا مجسمہ بنا کر اور اس سے تعلق پیدا کرکے تاجک قوم کا کتنا فائدہ ہوتا، اس موضوع کو چھوڑتے ہیں انتھروپولوجسٹ بھائیوں کیلئے۔ ہم آجکل تاریخ سے زیادہ بدلتے جغرافیوں کے محرکات کے داعی بھی اور ان سے خوفزدہ بھی ہیں۔ ڈیڑھ صدی پہلےاس خطے میں اماراتی نظام رائج تھا ویسے ہی جیسے اب مڈل ایسٹ میں ہے۔ روسی تجارت کے واسطے آئے اور پھر قابض ہو گئے۔ حکمران کوئی بھی ہو، ہر دور میںیہ خطہ اہم رہا ہے۔

۱۹۲۴ میں سینٹ پیٹرزبرگ سے لوگوں نے آکر اس ویرانے کو دوشنبے میں تبدیل کیا۔ تبدیلی کی کہانی ویسے بڑی مضحکہ خیز ہوتی ہے۔ سومونی کے مجسمے کی جگہ پہلے پہل لینن کا مجسمہ ہوا کرتا تھا۔ ۱۹۹۲ میں اسکو ہٹایا گیا کہ اب ہم غلام تھوڑی ہیں اور اپنی تہذیب کا اٹوٹ انگ مانتے ہوئے فردوسی کویہاں جلوہ افروز کیا گیا۔ دانشور زیادہ عرصہ اشرافیہ کو نہ بھانویں ہیں سو سومونی کو تاریخ کے پردوں سے نکالا گیا، تاجک ٹچ دیا گیا اور سونے میں لاد کر کروفر کے ساتھ یہاں ایستادہ کردیا گیا۔ پاس دو شیر بھی نسب کردئیے گئے۔ مجسمہ تو عالی شان ہے ہی، اس کے پیچھے کی آرچ اور پھر اس پر بنا تاج، تاجکوں کے ذوق کا منہ بولتا ثبوت ہے۔

جگہ جگہ ایرانی تہذیب کے اثرات کی بات کی تو گائیڈ بھڑک اٹھا کہ تمام لوگ پرشین تہذیب کو صرف ایران سے منسوب کرتے ہیں حالانکہ وسط ایشیا خاص کر تاجکستان اس تہذیب کا اہم وارث ہے۔ نجانے ہے یا روسیوں کے جانے پر تہذیبی خلا کو پر کرنے کے واسطے اسے گلے لگا رکھا ہے۔ کہنے لگا دو عدد پاکستانی بھی ہم اپنی تہذیب میں شامل کرتے ہیں۔ ایک مرزا بیدل اور دوسری زیب النساء۔ پاکستانی؟ کوئی بتلاؤ کہ ہم بتلائیں کیا؟یہی بتلایا کیے کہ ہم نے اس سال اسلامآباد میں جشن بیدل برپا کیا تھا۔

سومونی کے مجسمے کی پیچھے عظیمالشان لائبریری ہے اور فواروں کی قطار کے ساتھ چلتے جاؤ تو دوسرے کونے پر تاجکستان کا ایمبلم ہے۔ ایک اور مینار جس کے اوپر تاج جو ایک طرف گندم دکھاتا ہے تو دوسری طرف کپاس۔ سات ستارے قدیم مذاہب کی عکاسی کو اور پھر شاہ خورشید اور یہ سب  دھرا اک کتاب پر۔  یہ ورثے کا پیٹ بھرنے کیشاید اک اور کوشش ہے۔ دینی معاملات میںیہاں ریلیکس ماحول ہے اور ریاست کو چار دیواری کے اندر کچھ بھی کرنے پر کوئی اعتراض نہیں ہے۔ نوروز ایران کی طرح اک تہوار نہیں زندگی کی اک بھرپور جہت ہے۔ ہمیں بھی مشورے سے نوازا گیا کہ یہ اسلام میں ہرگز حرام نہیں اور پاکستان میں بھی منایا کریں۔ ہم نے بڑک ماری کہ ہم بسنت مناتے ہیں بہار کو خوش آمدید کہنے کے واسطے۔ صد شکر کہ جھوٹ سے عرش نہیں ہلا کرتے ہیں۔ گائیڈ کچھ اور بے تکلف ہوا کہ پاکستان میں لوگ مذہب سے آبسیسڈ ہیں اور یہ رویہ مناسب نہیں ہے۔ ہم کیا کہتے کہ بھائی آپ بھی تو نوروز سے آبسیسڈ ہیں۔ ہر جگہ نوروز کے سبز درخت نما مینار اور رنگ بکھرے ہوئے تھے۔ سارا تاجکستان نوروزایا ہوا ہے۔ ازراہ مذاق ہم نے کہا کہ اس دفعہ رمضان اور نوروز ایک ساتھ آگئے ہیں۔ جواب ملا کہ نوروز نے بہت کچھ سروایو کیا ہے۔ اسے کوئی اور تہوار ماند نہیں کرسکتا۔ یہ کہتے ہوئے اسکا اسلام بھی خطرے میں نہ پڑا تھا۔ ایمبلم کے اک کنارے سے صدر صاحب کا محل نظر آتا ہے۔ مانا کہ خوشحال ملک پر اتنا بھی خوشحال نہیں کہ صدر کا اس قدر عالی شان محل ہو۔ شاید ہم بھول رہے تھے کہ ہم ایشیا میں ہی ہیں بحرحال۔ ایک لمبی آبشار اور سامنے گھوڑوں کی ریس کا میدان جہاں صرف کھیل ہوتا ہے، گیم نہیں ۔ چلتے چلتے یہ بھی پتا چلا کہ سخت سردی میں جب بے تحاشہ بجلی استعمال ہوتی تب بھی اک عام گھر کا۳۰ ڈالر سے زیادہ بل نہیں آتا ہے۔بجلیکافی سستی ہے اور پاکستان کو بیچنے کے امکانات پر بھی دو طرفہ بات چیت چل رہی ہے۔

اک زمانہ تھا کہ وسط ایشیا کی سرحدیں آج جیسی نہ تھیں اور اک تسلسل تھا۔ اسی کے تحت تاجک بھائی گلگت بلتستان اور کے پی کے کچھ حصوں کو اپنا سمجھتے ہیں۔ اسمعیلی فرقہ بھییہاں بکثرت ہے۔ اسمعیلیسنٹر شاندار جگہ ہے۔ سورج کی روشنی کے نظام کو استعمال کرکے روشن رہتا ہے۔ جماعت خانے کے مینار سیدھے اور اونچے ہیں۔ گنبد اسمعیلی آرکیٹیکچر کا حصہ نہیں بنتے ہیں۔ جماعت خانے کے مینار اہل بیت کو ظاہر کرتے ہیں۔ جماعت خانہ اس عمارت کا ایک حصہ ہے جبکہ اصل میںیہ مکمل کمیونیٹی سنٹر ہے جو پرنس آغا خان کی عنایت ہے۔ گو گائیڈ نے کہیں روایتی گائیڈز والی تعلی سے کام نہیں لیا مگر یہاںیہ فرمایا کہ عمر خیام اور حافظ وغیرہ سب اسمعیلی تھے۔ اب کوئی محقق یہ کھوجے تو معلوم ہو پائے۔ عمر خیام کی تو رباعیوں کی تعداد ہی ابھی ٹھیک سے معلوم نہیں اور ہر دوسری رباعی ان سے منسوب کر دی جاتی ہے تو فرقے کا تعین کیسے ہوگا۔ اسمعیلی سنٹر کے سامنے روسی دور کی عمارت جہاں سوشل گیدرنگز ہوا کرتی تھیں۔ پاس ہی لوہوٹی کا اوپرا بھی تھا جو ایرانی شاعر اور فوجی تھا مگر کمیونسٹ ہوکر سوویت آنکلا اور پھر دوشنبے کو اپنا ٹھکانہ بنایا تھا۔ کتنی ہی جگہیںیہاں لوگوں کے جمع ہونے کی ہیں، کھیل، تماشے کرنے کی ، رقص دیکھنے کی۔نوروز محل بھی اک عجیب معمہ نکلا تھا۔ ہم تو سمجھے تھے کہ کسی پرانے بادشاہ کا محل ہوگا مگر یہ تو پندرہ سال پرانی کاوش نکلی تاجکوں کی اپنا ورثہ بحال کرنے کی۔ عمارت کے اندر مختلف گیلریز اس دھرتی کے ثقافتی رنگ کو جنم دیتی ہوئی موجود ہیں۔ شیشوں کا محل، ماربل کا محل جس  میںمختلف طرح کے پتھروں سے ایرانی شعرا کو پتھرایا گیا ہے۔ لکڑی کا محل اور پھر شیشوں کے اک محل میں کٹے ہوئے شیشوں پر وسط ایشیا کے پرچمرنگے ہیں۔  گائیڈ نے اسے تاج محل کی طرح اک لاحاصل عمارت قرار دیا۔  اسی عمارت میں ایک اور سیاح نے پاکستان کا سن کر بابر کا ذکر چھیڑا اور پاکیز اور تاجکز کو کزن بنا ڈالا۔ اسمعیل سمونی بھی تو اک تعلق صدیاں پہلے تھا۔ ایشیا کس بری طرح سے گندھا ہوا ہے ۔  شہر میں پا پیادہ دورے اور پبلک بس میں کافی مرتبہ گہرے سبز رنگ کی وردی میں ملبوس فوجیوں سے بھی ٹاکرا ہوا۔ ظاہر ہے افسر تو یوں پیدلیا بس میںگھومنے سے رہے اور سپاہیوں کے حساب سے ان راہ چلتے فوجیوں کی وضع قطع کچھ زیادہ ہی خوشحال تھی۔ فوج شاید افغانستان والی طرف کیلئے ضروری کہ اذبکستان، کرگستان اور چائینہ سے تو حالات اچھے ہیں۔ آذادی کا مجسمہ بھی طویل و عریض پارک میں ایستادہ ہے اور بلا وجہ ہی آذادی کا مجسمہ کہلاتا کہ آذادی کے کئی سال بعد بنا اور تعمیر کا بھی آذادی کے کسی سمبل سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ ہاں ہے تو وہیخواہش کہ اپنا ورثہ ریوایو اور تخلیق کیا جائے۔  ہر مجسمے  اور مینار کے اوپر تاج، تاجکستان کے نام کی لاج رکھے ہوئے ہے شاید۔

یہاں ٹانگوں کا کام ختم ہوا اور ۱۸ نمبر بس پکڑی  کہ شہر کا اک دورہ پبلک ٹرانسپورٹ پہ بھی ضروری تھا۔ سمونی اور رود اکی ایوینیو پر سفر کرتے ہوئے منظر ڈبلن بس کا سا تھا۔  نہیں شاید میٹرو اسلامآباد کا سا تھا۔ عورتوں کا لباس پبلک ٹرانسپورٹ پرشلوار اور قدرے لمبی قمیض پر مشتمل تھا۔ اکثر کا سر ڈھکا ہوا تھا۔ ہاں ریستوران اور مارکیٹوں میں بیشترخواتین مغربی لباس میںملبوس تھیں۔ بس چلتی جارہی تھی اور بارش کے بہتے پانی سے شیشے کے باہر کا منظر دھندھلاتا جا رہا تھا۔ مگر اتنا بھی نہ دھندھلایا تھا کہ ہم پرانے اور نئے رہائشی ٹاور کا فرق نہ کر پاتے۔ پرانے رہائشی فلیٹ تو کچھ کراچی کے فلیٹوں سے لگے۔ مارکیٹیں جدید تھیں اور ہر طرح کا برانڈ موجود تھا۔اک روایتی ریستورانت سےکروتوب کھایا۔ ریستورانت پشاور کے شنواری ریستورانت جیسا تھا۔ کیبن بنے تھے اور اندر تخت اور تکیے لگے تھے۔ کروتوب کو بریڈ سلاد بھی کہتے ہیں۔ روٹی کے ٹکرے پنیر اور پانی میں ڈبو کر سبزیوں کی آمیزے میں ملا کر ہری مرچ کیساتھ پیش کیے جاتے ہیں۔ ذائقہ زبان کو نامانوس نہ لگا اور شوق سے تناول کیا۔

رات بخارا ریستورانت میں ایلیٹ ماحول اور اپر کلاس تاجک دیکھے۔ ایرانی سیاح بھی موجود تھے۔ پرتکلف کھانے اور ڈنر ڈانس نے رات کو گرما دیا۔رقص ترکی کے کروز ڈانس کا سا تھا۔ گو رمضان تھا پر نوروز بھی تو تھا سو سیاحوں کیلئے سپیشل شو تھا۔ دو درمیانی عمر کی حسین لڑکیاں، سلک اور جالی کے متناسب لباس میں کھانے کی میزوں کے بیچ میں رقصاں تھیں۔ سوچا کچھ تھا، نکلا کچھ۔ یہ پہاڑوں میں گھرا کم آبادی والا ملک لوگوں کو کیسے پیار سے سموئے ہوئے ہے۔ مسائل بھی ہیں اور گمبھیر ہیں پر لوگ زنگی نپٹا نہیں رہے، جی رہے ہیں۔

اگلا پڑاؤ دوشنبے سے دو گھنٹے کی مسافت پر زرفشاں پہاڑ تھے۔ ان کو زرفشاں اسلئے کہتے کہ کے اندر سونا چھپا ہے۔ ہمیں قدرت نے نمک دیا اور ان کو سونا، ایلیمونیم، سرما اور اچھا کوئلہ۔ شہر کے مضافات میں امیروں کے گھر تھے جو کشادہ اور شاندار تھے۔ دوشنبے سے نکل کر رکھ رکھاؤ کم اور حسن زیادہ ہوگیا۔ شہر میں پرانی عمارات گرا کر پلازے تعمیر کیے جا رہے ہیں جبکہ مضافات میں سویت کے زمانے کی کنسٹرکشن اب بھی بکژرت موجود ہے۔ صفائی اور مینٹیننس مضافات میں ٹوٹل کی ہی ہے۔ ٹورسٹ فرینڈلی ماحول نہیں ابھی تک۔ سفر میں ٹوائلٹ تک نہیں ملتا، چائے خانے تو دور کی بات ہے۔ موسم کیوجہ سےچونکہ ٹورزم کا دورانیہ کم ہوتا ہے سو گورنمنٹ اس کو انڈسٹری بنانے کو فیالحال تیار نہیں ہے۔ہاں جرائم کنٹرول اچھا گورنمنٹ کا۔ اسلحہ رکھنے پر مکمل پابندی ہے۔ منشیات پر بھی پکا کنٹرول ہے۔ جس نے منشیات استعمال کرنی افغانستان جائے۔ جس طرح افغانی و ایرانی واٹکا پینےیہاں آتے ہیں۔  گو صدر نے بہت کام کئے اور عوام دوست ہے مگر پھر بھی پڑھے لکھے لوگوں کا خیال ہے کہ ۳۵ سال حکومت میں کسی کے بھی  رہنے کا کوئی جواز نہیں ہوتا۔

شہر سے نکلتے وقت معلوم نہ تھا کہ کچھ ہی گھنٹوں میں پہاڑوں، پانی اور موسم کی کئی رنگ اور ڈھنگ دیکھنے کو ملیں گے۔ شروع میں سپاٹ پہاڑ اور کہیں مٹی تو کہیں سبزہ اور دامن میں بہتا دریائی ورزوپ۔ مظفرآباد سے ملتا جلتا منظر تھا۔ کہیں دریا درمیان میں آجاتا ہے اور ایک طرف پراپر آبادی تو دوسری طرف کچھ گھر اور پھر سیلف ہیلپ بنیاد پر بنے لوہے کے چھوٹے پل اور پلوُں پر دروازے اور ان پر پڑے تالے۔ چونکہ پل سے راستہ سیدھا گھر یا پبلک پراپرٹی کو جاتا ہے سو تالہ لگانے پر کوئی معترض نہیں ہے۔ آہستہ آہستہ منظر بلکل گلگت بلتستان کا سا ہونے لگا تھا۔ سرمئی، کتھئی، سبز، سیاہ، بھورے ڈیزائن پہاڑوں کو عجیب رنگ دئیے ہوئے تھے۔ سرما کشید کرکے ایکسپورٹ بھی ہوتا ہے۔ گاؤں کے لوگ پڑھے لکھے اور دنیا دیکھے ہوئے ہیں۔ کچھ نہ بھی ہو تو وسط ایشیا ضرور گھومے ہوئے ہیں۔ انڈیا پاکستان کی طرح کم اجرت پر سیاحوں کیلئے پورٹر کا کام ہرگز نہیں کرتے ہیں۔ اسی غلط فہمی پر اک یورپی کمپنی نے بڑا نقصان اٹھایا اور کہا بھی کہ پاکستانی انڈین  تو سب کر لیتے تو آپ کیوں نہیں؟

اسی گپ شپ میں بارش برف باری میں اور سنگلاخ پہاڑ برف پوش چوٹیوں میں تبدیل ہو گئے۔  مارچ کے آخری دنوں میں اس منظر کا ہرگز نہ سوچا تھا۔ دیکھتے ہی دیکھتے سارا ماحول سفید اوردھندھلا ہوگیا۔ فور وہیلر گاڑی، اچھی سڑک اور مشاق ڈرائیور نے اس تبدیلی کا اثر سفر کی روانی پر ہرگز نہ ہونے دیا۔ سب سے شاندار شے وہ بےشمار ٹنل تھے جنہوں نے پہاڑوں کے بیچ اس سڑک کو رواں رکھا ہوا ہے۔ ہم کشمیر میں جہلم ویلی  کے دو چھوٹے ٹنلز پر اتراتے ہیں اور یہاں دنیا ہی اور ہے۔ پندرہ سے بیس ٹنل تو ضرور آئے ہونگے۔  سب سے شاندار استقلال ٹنل ہے جو ساڑھے پانچ کلومیٹر لمبا ہے۔ پہلے ایرانیوں کو ٹھیکا ملا تھا مگر بات نہ بنی اور پھر دوبارہ بنانا پڑا۔  یوں لگتا ہے کہ سرنگ کبھی ختم ہی نہیں ہوگی۔ کبھی لگتا کہ امریکہ  جیسے ملک میں سفر کر رہے کہ ایسا جدید ماحول ہے۔  کوئی کہہ سکتا کہ اردگرد برفپوش پہاڑ ہیں۔ کچھ خوف بھی محسوس ہوا کہ آگے نجانے دوسرا سرا آئیگا بھییایونہی قیامت تک اس ٹیوب میں پانی کی طرح بہتے چلے جائیں گے؟ خوف کم کرنے کو گپ شروع کی تو موضوع بھی خوفناک ہی در آیا۔ سوال میرایہ تھا کہ یہاں مساجد بہت کم ہیں۔ فکر جو ہورہی تھی تاجکوں کی دنیا اور آخرت کی۔ معلوم پڑا کہ حکومت کی اجازت کے بغیر مسجد بن نہیں سکتی اور اجازت حکومت عموما  آسانی سے دیتی نہیں ہے۔ جو اجازت مانگتا ہے، اس کو کہتی کہ پہلے اور بہتر اور فائدہ مند کام کرو، وہ ہوجا ویں تو مسجد بناؤ۔ جہیز پر بھی سخت پابندی ہے۔ عیسائی مشنریوں کی تبلیغ پکڑی جائے تو جرمانا ہوتا ہے۔ مگر سب سے سخت سزا ان کیلئےہے جو وہابی ہوتے ہیں۔ حکومت جیل بھیج دیتی اگر کوئی وہابی ہونے کا سوچے بھی۔ ان کو لگتا کہ وہ بہت کٹر ہوتے اور ان کے قدرے سیکولر ہوکر کامیاب ہوتے معاشرے میں بگاڑ پیدا کرسکتے ہیں۔

پہاڑوں پر ڈمپروں کی بےتحاشہ ٹریفک تھی۔ سونا اور کوئلہ بھل بھل کر جو نکلتا یہاں سے۔ ہمارے ہاں بھی تو ایسے ہی پہاڑ ہیں۔ ان کو بھی کھودو شاید کچھ نکل ہی آئے۔ سیومایہاں سب سے زیادہ استعمال ہونیوالا منرل واٹر ہے جو ایک چشمے سے بھرا جاتا ہے۔ راستے میں اس چشمے پر پورا منرل واٹر پلانٹ دیکھا۔ یوول حراری کا کنزیومرازمیہاں سمجھ آیا۔ برفوں کی لینڈ سلائیڈ بھی جگہ جگہ مگر عملہ فورا اس کو سائیڈ پر کرتا جاتا ہے کہ رکاوٹ نہ ہو۔ چھوٹے چھوٹے گاؤں سیاحت کی کمائی پر نہیں بلکہ اپنی کانوں کی کمائی پر چل رہے۔

اسکندرکل جھیل پر بھی کوئی رش نہ تھا بلکہ اس تنہا حسین جھیل کی تنہائی بانٹنے کو ہم ہی ہم تھے دوستو۔ پہلے نزدیکی آبشار کی راہ لی۔پندرہ منٹ کی واک پر شفاف نالہ ساتھ رہا جو کچھ موڑ مڑ کر پتھروں کی ستم ظریفی کی بنا پر آبشار میں بدل گیا۔ گورنمنٹ نے اک لوہے کا جنگلہ سا لگا رکھا ہے کہ قریب سے نظارہ کرو۔  لوہے کے راڈ آدھے انچ کے فاصلے پر رکھ کر ویلڈنگ سے جوڑے گئے ہیں۔ آبشار کے اندر گرنے سے بچانے کا انتظام پورا ہے پھر بھی جی کچھ تو گھبرائے ہے۔ پتھروں کی گھاٹی سے گزر کر شور مچاتا اور جھگ اڑاتا پانی دعوت ضرور دیتا کہ خاک میں مل کر فنا ہوئے تو کیا ہوئے، مجھے اس مقصد کے واسطے آزما کر دیکھو۔ آبشار کی لوکیشن ایسی ہے کہ اس ایک پوائنٹ کے علاوہ مکمل نظارہ نہیں ملتا۔ ہوتییہ کہیںیوروپ میں تو تانتا بندھا ہوتا یہاں۔ ہماری طرح تخلیے میں سیاحت کے شوقینتو یہاں ضرور آئیں۔ واپس جھیل پر آئے تو سوچا کہ مولانا طارق جمیل کی حوروں کو مائنس کردیں تو جنت اور کیا ہوگی۔ جو چاہتے ہیں کھاتے ہیں ، پیتے ہیں، جہان من کرتا چل پڑتے ہیں اور آج برف پوش سیڈل کی شکل کی چوٹیوں کے بیچ جھیل کا یہ نظارہ بھی تو جنت کا سا ہی ہے۔ ان دیکھا خدا یا مادر پدر آذاد کائینات کتنی مہربان ہے ہم پر۔ حوروں والا معاملہ  بھییہاں نہ سہی پر گاہے گاہے نپٹتا ہی رہتا ہے سو ہم کہے دیویں ہیں کہ صدیوں پہلے جس جنت کا وعدہ کیا گیا تھا وہیہی ہے اور ہم صدیوں پرانے نیک  انسان مر کر یہاں مزے لوٹ  رہے ہیں اور تب کے فرعون اب ذلیل و رسوا ہیں۔ ہاں اس جنت کا داروغہ ٹرمپ ہے یا کوئی اور، اس پر بات ہوسکتی ہے۔ جھیل کی رعنائی کو سراہنے والے خال خال ہے تھے، بھئی جنت میں سب تھوڑی آتے ہیں۔ پورا ۳ڈی ویو تھا۔ سبز پہاڑ، سرمئی پہاڑ، نیم برفپوش چوٹیاں ، برف سے مکمل ڈھکے پہاڑ اور دامن میں نیلگوں پانی ہلکا شور مچاتا ہوا۔ وہ شور جو ہرگز گراں نہیں گزرتا بلکہ جنت کے روز مرہ کاموں کیلئے اچھی پس پردہ  موسیقی کا کام دیتا ہے۔ کچھ دیر اس منظر سے دکھ سکھ کر کے واپسیکی راہ لی۔ زرفشاں پہاڑوں کو ان کے کوئلے اور سونے سمیت حسرت سے تکا کئے ۔ پتھروں کے جھونپڑی نما گھر خال خال ہی تھے، اسی طرح گورنمنٹ کا ایلیٹ کامپلیکس بھی ایک ہی تھا۔ زیادہ عمارات دیہی علاقے میں بھی مڈل کلاس ہی تھیں۔ سوچیں کہ جنت نما جھیل پر نہ چائے ، نہ شراب ، نہ حور۔ نہیں نہیںیہ جنت ہر گز نہ تھی۔ گونمنٹ کی کچھ توجہ اسے جنت بنا سکتی ہے۔ اک روز وہ دن آئیگا کہ دنیا نہ سہی پر اس خطے میں امن ہوگا، ویزہ سسٹم نرم ہو جائیگا، ریل بچھے گی پورے خطے میں اور مری اگلییا اس سے اگلی نسل اس جھیل پر شباب، شراب اور چائے کی فراوانی کے ساتھ انجوائے کرے گی۔

واپسی پر میگن مارکیٹ کا رخ کیا۔ باہر سے شاپنگ مال جیسی وائب اور اندر سے سبزی منڈی۔ زیادہ تر خواتین دکاندار تھیں۔ ڈرائیفروٹ، پھل، سبزی، گوشت اور بیکری آئیٹم کے سیکشن گراؤنڈ فلور پر تھے۔ اشیأ کے انبار پر براجمان دکاندار اور بھاؤ تاؤ کرتے گاہک بازار کے منظر کو مکمل کئے ہوئے تھے۔ اوپر موبائل کیدکانیں اور اس سے اوپر گارمنٹس کا سیکشن تھا۔ اک اور مسئلہ  جو بہت زیادہیہاں درپیش رہا وہ تھا رات کے کھانے کے بعد میٹھے کا۔ یہاں تاجکوں کا ذوق پانی بھرتا نظر آیا کہ پھلوں کے علاوہ انکو کم ہی میٹھے میں کچھ بھاتا ہے۔ اس کے باوجود اکثر کی توند جھانکتی محسوس ہوتی ہے۔

 دوشنبے ہوائی اڈہ شہر کے اندر ہی ہے۔ اس پہاڑی ملک کی دو دو قومی ایئرلائنز ہیں۔ ائیرپورٹ سادہ ہی اور امیگریشن والوں کے چہرے کی چھاپ وہی بینالاقوامی ہے۔ فلموں میں تو کافی رول ہوتے انکے، ادب میں شایدیہ کم ہی در آتے ہیں۔ گو شاید ایک فیصد سے بھی کم لوگوں کو روکتے ہونگے مگر کیسا اختیار انکے پاس بھی۔ مکاں میں قید صدا کی دہشت اور مکاں سے باہر لامکاں کی دہشت کے درمیان کے داروغہ ہوتے یہ۔ یہاں انگریزی کا لفظ ویرڈ زیادہ مناسب ہے شاید۔ سرحدیں ایک ڈیلوژن، انکی حفاظت اک اور ڈیلوژنہے۔ اس کیلئے مرنا بھی شاید ڈیلوژنل برتاؤ ہے۔ یہ کام تو فوجی کرتے ہیں۔ امیگریشن والے تو صرف یہ ممکن بناتے کہ ڈیلوژنل عمل مکمل اجازت کے ساتھ ہو۔ دوشنبے زندہ ہے اور زندگی کی سب سے بڑی حقیقت”ارتقا” سے گزر رہا ہے اور شاید ایشیا کے ارتقا کی معراج یورپ کے قریب ہونا ہی ہے۔ اگلا پڑاؤ تاجکستان کے ہمسایہ ملک ازبکستان کا دارلخلافہ تاشقند تھا۔