اپنی ہی آگ میں میں آپ جلا جاتا ہوں

یہ تحریر 99 مرتبہ دیکھی گئی

غصہ اور ناراضگی کے بغیر زندگی کا تصور ممکن نہیں۔ سوال یہ ہے یہ غصہ کس کے لیے ہے اور کیوں کر ہے۔تخلیق میں غصہ چھپ جاتا ہے،وہ چھپ چھپ کر اپنی موجودگی کا احساس دلاتا ہے۔ناراضگی اور غصہ کے درمیان کچھ فرق بھی کیا جا سکتا ہے۔غصے کے مقابلے میں ناراضگی زیادہ مہذب اور بامعنی کردار ادا کر سکتی ہے۔غصہ اول و آخر اپنے اظہار میں اکثر اوقات غصہ کرنے والے کو چھوٹا بنا دیتا ہے۔جیت ہار کا فیصلہ تو بعد میں ہوتا ہے،فوری طور پر ذہن کی پراگندگی بلکہ مفلسی ظاہر ہو جاتی ہے۔مگر غصہ بھی اپنا ایک جواز رکھتا ہے اور معیار بھی۔ذرا ذرا سی بات پر ناراض ہو جانا ایک ایسی ادا ہے جس پر پیار آتا ہے۔تنقید میں غصے کا درآنا غیر فطری نہیں۔لیکن غصہ فکر و خیال کی دنیا کو خاموشی کے ساتھ چھوٹا بنا دیتا ہے۔وسعت جب تنگی میں تبدیل ہو جائے تو ایسے غصے کا کیا فائدہ۔غصہ جیسا کہ میں نے عرض کیا کیوں ہے کس کے لیے ہے۔اس سوال کا جواب غصے کی حامل تحریر فراہم کر سکتی ہے۔کبھی کبھی اپنے دور کے ادب اور ادیب کے بارے میں لکھتے ہوئے غصے کو سنبھال کر رکھنا مشکل تو ہے لیکن ضروری بھی ہے۔جس تنقید میں غصہ تعصب کی صورت اختیار کر لے اس کی عمر زیادہ لمبی نہیں ہوتی۔فوری طور پر شہرت ضرور مل جاتی ہے۔غصہ دراصل شہرت کا دوسرا نام بھی ہے ۔لیکن شہرت حاصل کرنے کا یہ سب سے کمزور وسیلہ اور سہارا ہے۔ادبی مسائل کی تفہیم اور تعبیر میں جب تناظر نقاد کا چھوٹا ہو جاتا ہے تو ایسے میں غصے کو راہ پانے کا موقع مل جاتا ہے۔لہذا ادبی مطالعہ کے تناظر کا بڑا ہونا بہت ضروری ہے۔تناظر اور سیاق یہ دو لفظ اب ہماری تنقید میں زیادہ استعمال ہو رہے ہیں،لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ اسی کے ساتھ ساتھ ذہنی تنگی بھی بڑھتی جاتی ہے۔ذہنی تنگی کا سبب صرف مطالعے کا محدود ہونا نہیں ہے۔سنجیدہ کتابوں کا قاری جب نفسیاتی الجھن کا شکار ہو جاتا ہے تو اچھی اور بڑی کتابیں بھی اسے پریشان کرنے لگتی ہیں ۔واضح رہے کہ کوئی کتاب اگر کسی کو فکری اعتبار سے پریشان کر رہی ہے تو یہ کتاب اور قاری دونوں کے لیے بڑی بات ہے۔مگر کتاب کا پریشان کرنا یا قاری کا پریشان ہو جانا اس کا تعلق ہر کتاب اور ہر قاری سے ایک طرح کا نہیں ہے۔اگر اپنی ادبی روایت بلکہ تنقید کی روایت پر نگاہ ڈالیں تو یہ حقیقت روشن ہوتی چلی جائے گی کہ غصہ جو بلآخر طنز اور تمسخر کی صورت اختیار کر لیتا ہے،اس سے تنقید کو فائدہ کے بجائے نقصان پہنچاہے۔تنقید کا سختی کے ساتھ فنکار یا فن بارے کا محاکمہ کرنا تنقید کے فرائض میں شامل ہے،اس کی بہت روشن مثال کلیم الدین احمد کی تنقید ہے۔لیکن کسی نے کلیم الدین احمد سے یہ شکایت نہیں کی کہ وہ غصے میں ہیں یا ان کے یہاں غصے کی ایسی نفسیات ہے جس کا تعلق نفسیاتی الجھن سے ہو۔کلیم الدین احمد کی ناراضگی ان معیارات کی وجہ سے ہے،جن کے وہ متلاشی تھے۔مایوسی کی صورت میں انہوں نے شاعروں اور نقادوں کے لیے جو زبان استعمال کی وہ انہی معیارات سے گہری وابستگی کا پتا دیتی ہے۔کلیم الدین احمد کی تنقیدی فکر کا یا تنقیدی رویے کا اثر سب سے زیادہ شمس الرحمن فاروقی نے قبول کیا،لیکن ان کا اسلوب اپنا ہے۔کہیں کہیں وہ اسی زبان میں حالی، شبلی اور دوسرے ادیبوں کو یاد کرتے ہیں۔ادبی تنقید میں غصہ اور ناراضگی کی وجہ اور بنیاد ادبی ہی ہو سکتی ہے۔معاصرانہ چشمک کے پیچھے بھی جو رویہ کام کر رہا ہوتا ہے اس میں تعصب کی کار فرمائی دیکھی جا سکتی ہے۔یہی وجہ ہے کہ یہ معاصرانہ چشمک محض تاریخ کا حصہ بن کر رہ جاتی ہے۔سوال یہ ہے کہ غصے اور تعصب سے بھری ہوئی تنقید ادب میں بامعنی کردار ادا کیوں نہیں کر پاتی۔اس کی وجہ بہت سامنے کی ہے لیکن اکثر اوقات تنقید اس وجہ کی زد میں آ کر اپنا وقار کھو بیٹھتی ہے۔طنزیہ جملے کا آغاز تذکروں سے ہو جاتا ہے،آب حیات میں اس کی مثالیں آسانی سے تلاش کی جا سکتی ہیں۔لیکن آب حیات کہ تیکھے اور طنزیہ جملے گوارا ہو گئے،اس کے کچھ اپنے تاریخی اور تہذیبی محرکات ہیں۔اس نقطہ نظر سے اگر ادبی تنقید کا جائزہ لیا جائے تو وہی تنقید دیر تک اور دور تک اہم کردار ادا کر سکی ہے جس میں طنز اور تمسخر نہ ہونے کے برابر ہے۔اس سوال پر غور کرنا چاہیے کہ طنز اور تمسخر نقاد کی کس ذہنی الجھن کا اظہار ہے۔یہاں پھر اس فرق کو واضح کرنا ضروری ہے کہ جن اہم نقادوں کے یہاں طنزیہ جملے مل جاتے ہیں،وہ اپنے پورے فکری سیاق میں اہمیت کے حامل ضرور ہیں،مگر نقصان یہ ہوا کہ سنجیدہ اور گہری فکر کے حامل جملے موضوع گفتگو نہیں بن سکے،یا کم بن سکے۔
لکھتے لکھتے یا سوچتے سوچتے ذہن کتنا سمٹ جاتا ہے۔

۔اور کبھی سوچتے سوچتے اور لکھتے لکھتے ذہن وسیع ہوتا جاتا ہے۔
ذہن کی وسعت اور تنگنائی کی ذمہ دار تنقید نہیں بلکہ تعصب ہے۔
تعصب اندر اندر ادیب کو نقاد کو کھوکھلا کرتا جاتا ہے۔
ایک وہ تعصب بھی تھا جس میں طنز تو نہیں تھا تمسخر بھی نہیں تھا لیکن خود کو سب سے الگ دیکھنے کا غرور تھا۔
اس غرور نے کیسی قیامت ڈھائی۔
اس غرور کی علمی،تخلیقی اور حسی گہرائی نے اسے مضحکہ خیز بننے نہیں دیا۔
تنقید کی تنگنائی،اور تنقید کی وسعت
اب یہی موضوع ہے اور اسی سے تنقید کا مستقبل میں وابستہ ہے۔
نقاد کو غصہ کیوں آتا ہے۔؟
نقاد کا کام اگر کسی تخلیقی متن کو ٹھیک سے پڑھنا اور اس کی گہرائی میں اترنا ہے،تو ایسے میں اسے غصے کا خیال بھی کیوں آئے۔
غصے کی بنیاد جب نفسیاتی الجھن بن جائے تو ادیب اور نقاد کو محاسبہ کرنا چاہیے۔
نقاد کا غصہ تخلیق کار کے غصے کی صورت اختیار کر لے تو ایسے میں وہ زیادہ پریشان ہوتا ہے۔
تنقید میں غصہ کسی بڑے ڈسکورس کا وسیلہ نہیں بن پاتا۔
ناراضگی پھر بھی ناراض ہونے والے کو سنبھال لیتی ہے اور ادب میں مکالمے کی راہ کو ہموار کر لیتی ہے۔
ناراضگی کس کے لیے۔؟اپنی تنقید کے لیے یا اس ادیب کے لیے جس کی عظمت کو بحال کرنے کی تمنا نے اسے ناراضگی کی اس سطح تک پہنچا دیا ہے.
ایک چھوٹی سی فکر کی دنیا جو چھوٹی بھی نہیں مگر اسے ایک چھوٹا ذہن کس قدر چھوٹا بنا دیتا ہے۔
سوال یہ ہے کہ تنقید میں غصے کا عمل دخل کتنا خطرناک ہے غصہ ور کے لیے۔
اول تو وہ نقاد ہی کیا جو کسی فن پارے کو پڑھتے ہوئے عجلت پسندی کا شکار ہو۔
وہ نقاد جسے فن پارے کی گہری سطح سے خوف آتا ہے۔ذرا اس کی داخلی الجھن کا تصور تو کیجیے۔جو یہ کہتا ہے کہ مجھے اس فن پارے کے علاوہ کسی اور فن پارے اس سے کوئی غرض نہیں۔ایسی صورت میں کسی نقاد کا نقاد بن جانا کتنا خطرناک ہے۔
کسی نے کہا تھا یا کہیں لکھا تھا کہ ایک اچھا فن پارہ ایک اچھے نقات کا منتظر رہتا ہے۔
یا کچھ ایسا بھی لکھا تھا یا سنا تھا کہ کسی اہم اور بڑی تخلیق کی شکست کا کوئی وقت مقرر ہے،اور وہ وقت آ جاتا ہے۔
ایسا وقت اگر بار بار آئے تو طبیعت گھبرا جاتی ہے،گفتگو سمٹنے لگتی ہے،ذہن بھی سمٹتا جاتا ہے۔
کسی بڑی تخلیق کا غم و غصہ کسی معمولی شخص کے غم و غصے سے کہیں مات نہ کھا جائے۔
چھوٹی چھوٹی آرزوئیں ،کسی بڑی تخلیق کو روشن بھی کر دیتی ہیں۔مگر وہ آرزوئیں جو سینے میں کروٹیں لیتی ہیں،تخلیق کی گہری ساخت تک پہنچنے کے لیے۔
تنقید اس غصے کی متحمل ہو سکتی ہے،جس کی بنیاد میں بڑی تخلیق کی آگہی اور بصیرت ہو۔
تنقید اس غصے کو قدر کی نگاہ سے دیکھتی ہے،جو اپنے ہی وجود کی آگ سے پیدا ہوا ہو،اور جس کی پرورش میں کوئی عرصہ صرف ہوا۔ایک اچھی تنقید کا غصہ دراصل وجودی فکر کا غماز ہوتا ہے۔سودا نے کہا تھا۔
گرم جوشی نہ کرو مجھ سے کے مانند چنار
اپنی ہی آگ میں میں آپ جنا جاتا ہوں
یہ اپنی آگ صرف تخلیق کار کے لیے نہیں ہے۔نقاد کو بھی اس آگ میں جلنا اور جھلسنا چاہیے۔
اس شعر کو پڑھتے ہوئے،نہ کوئی تھرتھراہٹ ہوتی ہے اور نہ اب کوئی لرزہ براندام ہوتا ہے۔جیسے کہ بات چنار کے لیے کہی جا رہی ہے۔مانند چنار کی ترکیب گرم جوشی کے ساتھ کیا کچھ کہتی ہے۔جو کہتی ہے وہ ہم سمجھتے نہیں ہیں،یا سمجھنا نہیں چاہتے ہیں ۔اس کو سمجھنے اور محسوس کرنے میں خطرہ بہت ہے۔یہ احساس غصے کی کیفیت کو مضحکہ خیز بنا سکتا ہے،اور ایک ایسی کیفیت میں تبدیل کر سکتا ہے جو فوری مصلحت سے ماورا ہو۔
تخلیق کی ناراضگی کا خطرہ مول لینا کتنا خطرناک ہے۔
کسی نے یہ نہیں کہا کہ تنقید بھی ناراض ہو سکتی ہے۔
کبھی تخلیق اور تنقید کی ناراضگی کا ایک ساتھ خیال بھی آئے۔
خوش کرنے کی روش کا نام تنقید تو نہیں ہے۔
تنقید کب سے یہ اعلان کر رہی ہے کہ وہ انکار بھی ہے۔
تنقید نے کبھی یہ کہا تھا کہ اسے اپنی فوری اور وقتی ضرورت کے لیے استعمال کیا جائے۔
تنقید زندگی میں اور ادب میں جس اخلاقیات کو دیکھنا چاہتی ہے،اسے اور کیا نام دیا جائے۔
لیکن اخلاقیات کا بھی کیا حشر ہوا ہے۔
ہر چیز اگر اخلاقیات کے دائرے میں آ جائے،تو اسے کوئی اور اخلاقیات کا نام دینا چاہیے۔
تنقید وقت کے ساتھ علمی اور گہری بھی ہوتی جاتی ہے،مگر وہ وقت کے ساتھ ساز باز نہیں کر سکتی۔
تنقید علم کا بوجھ اٹھا سکتی ہے مصلحت کا نہیں۔
تنقید کہاں رسوا ہے اور کہاں سرخرو،یہ بھی دیکھنے کی ضرورت ہے۔
تنقید کی رسوائی تخلیق کے لیے کوئی اچھی خبر نہیں ہے۔
وارث علوی نے کہا تھا “معانی کس چٹان پر بیٹھا ہے”۔
کیا کوئی تنقید کے بارے میں یہ کہہ سکتا ہے کہ تنقید کس چٹان پر بیٹھی ہے۔
تنقید اگر چٹان پر بیٹھی ہوتی یا بیٹھ جاتی تو شاید تنقید اتنا اہم رول ادا نہیں کر سکتی تھی۔تنقید کتنی مصلحتوں کا شکار ہو کر چٹان پر تو نہیں بیٹھی لیکن —
وحید اختر نے کہا تھا کہ تخلیق کاروں کو بھی تنقید لکھنی چاہیے۔لیکن خطرہ اس بات کا ہے کہ اپنی تخلیقات کہیں مرکز نگاہ نہ بن جائیں۔
باقر مہدی کے یہاں کتنا غصہ تھا اور کتنا علم تھا۔
یہی بات فضیل جعفری کے بارے میں بھی کہی جانی چاہیے۔
لیکن اتنے دنوں کے بعد اب ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اگر غصے کے عناصر اتنے علم کے باوجود کم ہو جاتے تو شاید تنقید زیادہ گہری اور دیر پا اثرات کی حامل ہوتی۔یہ بات اب میں ایک قاری کی حیثیت سے محسوس کر رہا ہوں ۔اس احساس میں فضیل جعفری اور باقر مہدی کہتے ہیں میری گہری دلچسپی ہے۔
لیکن ان حضرات کے غم و غصے کو پھر بھی قبول کیا گیا اور شک نہیں ہوا کہ اس کے پیچھے کوئی اور منشا ہے۔
باقر مہدی کا غم غصہ کتابوں کے بے پناہ مطالعہ کا نتیجہ تھا۔اس غصے میں وہ دکھ بھی شامل تھا،جسے ترقی پسند فکر کی سمٹتی بساط نے پیدا کیا تھا۔فضیل جعفری اور باقر مہدی ایک ہی شہر میں غم و غصے کے دو حوالے تھے۔
“آبشار اور آتش فشاں””کمان اور زخم”آگہی و بے باکی۔ترقی پسندی اور جدیدیت کی کشمکش،اس فہرست میں وارث علوی کی کتابوں کو بھی شامل کر لیجئے۔فرق کے باوجود ایک اسلوب ہے جسے زمانے نے نہ صرف پسند کیا بلکہ اس سے لطف بھی حاصل کیا۔اس سلوک کا رشتہ محمد حسن عسکری سے قائم ہو جاتا ہے۔کٹیلے اور دھار دار جملے۔کیا قیامت ہے۔
غور کیجئے اور دیکھیے کہ غصے نے تنقید کے ساتھ کیسا سلوک کیا ہے۔اور ہمیں کیا ملا ہے۔یوں تو بہت کچھ ملا ہے مگر تنقید کی زبان اور تنقید کا اسلوب کتنا گھائل ہوا ہے،کتنا لہو لہان ہوا ہے۔لیکن یقین جانیے کہ ان سب کے یہاں وہی آگ تھی جو سودا کے شعر میں موجود ہے۔اپنی ہی آگ میں جلنے والی شخصیت کتنی بڑی ہوتی ہے۔اس کی زندگی کا اسلوب جس اخلاقیات کا پتہ دیتا ہے وہ خود اپنا جواز بھی ہے اور اظہار بھی۔غصہ اپنی ہی آگ کا زائیدہ تو ہو سکتا ہے۔لیکن یہ دیکھنا چاہیے کہ آگ کیسی ہے اور آگ میں جلنے والی شخصیت کیسی ہے۔دیکھنا بھی کیا وہ تو خود ہی جیسا کہ لکھ چکا ہوں اپنا تعارف ہے۔ آگ اپنے وجود کے اندر روشن ہوتی ہے۔یہ کہیں اور سے نہ لائی جا سکتی ہے نہ جلائی جا سکتی ہے۔ہاں اسے کہیں اور سے جلا ضرور مل سکتی ہے۔
آگ کی زبان،آگ کی آگہی ۔سر بازار بھی ہو سکتی ہے،مگر بازار آگ کو مدھم نہیں کر سکتا۔ہر نئی اور بڑی تخلیق کے ساتھ اگ بھڑکتی ہی نہیں بلکہ وہ تہذیب بھی کرتی جاتی ہے۔یہ کتاب پینٹنگ کی بھی ہو سکتی ہے،شاعری کی بھی،فکشن کی بھی،اور کچھ دوسرے مسائل سے متعلق بھی۔یہ سب کتابیں کبھی مل کر تو کبھی الگ الگ،آگ سے مکالمہ کرتی ہیں،اور شاید یہ کہتی ہیں،ہماری ہیت اور موضوع الگ الگ ضرور ہے لیکن ہم ایک ہی دنیا کے باسی ہیں۔ایک کی آگ دوسرے سے الگ نہیں ہے۔کتابیں وجود میں اتر جاتی ہیں،مشکل وقت ان کتابوں پر آتا ہے جو بوجھ بن جاتی ہیں۔کتابیں خود اپنی راہ ہموار کرتی جاتی ہیں۔یہ عمل کتنا خاموش اور کتنا کبھی تیز تر ہو جاتا ہے۔اس عمل میں قاری کا غصہ کہیں دور جا پڑتا ہے،اور اگر نزدیک بھی ہو تو اسے یہ محسوس ہوتا ہے کہ جیسے علمی اور تخلیقی آگہی کا ایک چھوٹا سا حصہ بلکہ اس سے بھی چھوٹا حصہ،اس کی گرفت میں آ سکا ہے۔اور شاید ایک عمر گزر جاتی ہے،سودا کا شعر اپنی ذات کے حوالے سے پڑھنے کی ہمت نہیں ہوتی۔
گرم جوشی نہ کرو مجھ سے کے مانند چنار
اپنی ہی آگ میں میں آپ چلا جاتا ہوں

سرور الہدی
20 اگست 2024