انتظار حسین نے شمیم حنفی کو جو خطوط لکھے ہیں ان کی تعداد 115 ہے۔ہو سکتا ہے کچھ خطوط نہ مل سکے ہوں۔لیکن شمیم حنفی صاحب نے خطوط کو جتنا سنبھال کر رکھا تھا،اس سے خطوط کے کھو جانے کا امکان بہت کم ہے زندگی کے آخری چند ہفتے انہوں نے ان خطوط کی تلاش اور انہیں الگ الگ کرنے میں بڑی حد تک صرف کیے. میں کہہ سکتا ہوں کہ انہیں خطوط کے شائع کرنے کا خیال بہت کم آتا تھا۔دو تین مرتبہ مجھے مشاہیر کے ان خطوط کا ذکر کچھ اس طرح کرنا پڑا کہ جیسے یہ بھی ہمارے عہد کی ادبی صورتحال کا اہم حوالہ ہیں۔مسکرا دیتے اور خاموش ہو جاتے۔مگر میں کوئی نہ کوئی موقع ان خطوط کے ذکر کا نکال لیتا تھا۔خطوط نکلتے جاتے تھے اور شمیم حنفی صاحب حیران ہوتے۔مجھے یاد ہے کہ فون پر فرمایا تھا،سرور اتنے خطوط نکل آئے ہیں کہ خود مجھے حیرانی ہے۔تم انہں دیکھ لو۔
آج دن کا آخری حصہ ان خطوط کی زمانی ترتیب اور قرآت میں گزر گیا۔شام کا یہ وقت دن کے ساتھ شروع ہو گیا تھا،اس کا سراغ کچھ ایسے خطوط سے ملا جن کا کاغذ دھندلا ہو گیا ہے۔یہ دھندلاہٹ کاغذ کے ساتھ شام سے مل گئی ہے یا پہلے سے کوئی شام تھی یا کئی شامیں تھیں جو ان خطوط میں پوشیدہ تھیں۔خطوط کارنگ کچھ سیاہی اور کچھ زردی کی طرف مائل ہےبلکہ سیاہ اور زرد رنگ ایک دوسرے کے ساتھ سرخی مائل دکھائی دیتاہے۔خط کرن تو اس کے موضوعات اور مسائل ہیں،مجھے خط کے کاغذ کا ذکر کرنا چاہیے تھا۔ کچھہ کا رنگ نیلا ہے اور کچھ ایسے کاغذات بھی ہیں جو چوڑی سیدھی لکیروں کے ساتھ ہیں۔زیادہ تر خط کے لفاف کی بائیں جانب by air mail
Par Avion
نیلے لال رنگ سے لکھا ہوا ہے۔ہوائی جہاز کا رخ دائیں طرف ہے،اور اس کے نیچے شمیم حنفی صاحب کا پتہ ہے۔لفاف کی بائیں جانب انتظار حسین کا پتہ ہے۔لفاف کہ چاروں کنارے لال اور نیلے رنگ کے ساتھ کتنے خوبصورت معلوم ہوتے ہیں،درمیان میں وہ اجلا رنگ بھی ہے جو لفاف کا ہے،اب اسے اجلا بھی کیا کہا جائے۔
کل شمیم حنفی صاحب کے گھر جانا ہوا۔مجھے محراب کی تلاش تھی،اتفاق سے میرا جو کتابی صورت میں ہے،سامنے دکھائی دیا۔محراب اس لیے بھی دیکھنا چاہتا تھا کہ کئی خطوں میں انتظار حسین نے محراب کی اشاعت کا ذکر کیا ہے۔اور یہ بھی لکھا ہے کہ شمیم حنفی صاحب کی کوئی تحریر اس میں شائع ہوئی ہے۔یہ بھی اتفاق ہے کہ گزشتہ دنوں فیضان الحق نے ضمیر الدین احمد کی افسانہ نگاری کے موضوع پر پی ایچ ڈی کا مقالہ جمع کیا ہے،اور اس محراب میں ان کے دو افسانے،تشنہ فریاد،اور سوکھے ساون،شمیم حنفی صاحب کے تعارف کے ساتھ شائع ہوئے ہیں۔یہ بلراج مینرا کے شعور میں پہلے ہی شائع ہو گئے تھے اسی لیے اخیر میں ب شکریہ شعور دہلی لکھا ہوا ہے۔محراب کے ایک شمارے میں کتھا سرت ساگر پر ایک مضمون ہے جو شمیم حنفی صاحب کی کسی کتاب میں شامل نہیں ہے۔اس کی بھی مجھے تلاش تھی اور وہ مل گیا۔اس محراب ایک اہم حصہ ڈائری کےچند اوراق ہے۔ناصر کاظمی کی یہ ڈائری 1953 کے مختلف دن اور داستان پر مشتمل ہے۔یہ پہلی بار میرے مطالعے میں آئی اور یہ اندازہ ہوا کہ ناصر کاظمی کو اردو کی کلاسیکی غزل کے ساتھ دنیا کی دوسری زبانوں کی شاعری سے کتنی گہری دلچسپی تھی۔آٹھ جنوری کی تاریخ ہے اور وہ لکھتے ہیں۔
“اسپین کے جواں مرگ شاعر لور کا کو دوبارہ پڑھنا شروع کیا یہ شاعر مجھے بے حد پسند ہے”۔
انہوں نے نظم کی کچھ لائنیں درج کی ہیں ۔اس نظم کے دو ترجمے ہوئے ہیں جو ایک دوسرے سے تھوڑے مختلف ہیں۔آج اسپینش زبان کے ایک طالب علم سے راغب اختر سے اس کا اصل متن دریافت کیا ۔درمیان میں یہ قصہ اس لیے درآیا کہ مجھے ناصر کاظمی کی ڈائری کو پڑھتے ہوئے بار بار شمیم حنفی کا خیال آیا ۔وہ ہوتے تو میں انہیں یہ نظم سناتا اور اس بارے میں کچھ گفتگو کرتا۔ایسی ہی بہت سی شامیں گزری ہیں،اور شاید ان خطوط کی شامیں ان شاموں سے الگ نہیں ہیں۔
یہ 115 خطوط لاہور سے دہلی کے لیے روانہ کیے گئے تھے،اور یہ کوئی افسانوی جملہ تو نہیں ہے کہ آج یہ دوبارہ موصول ہوئے ہیں۔شمیم حنفی صاحب نے جب مختلف تاریخوں میں انہیں موصول کیا ہوگا وہ حالات ظاہر ہے کہ آج سے مختلف ہوں گے۔ان خطوط کے لکھے جانے اور موصول ہونے کی تاریخیں ہماری ادبی اور تہذیبی زندگی کا اہم ترین حوالہ ہیں ۔انتظار حسین کا خط یعنی ان کی لکھاوٹ اتنی نہ تو مہین ہے اور نہ اسے بہت دل کش کہا جا سکتا ہے۔لکھنے کی روش ابتدا سے آخر تک تبدیل نہیں ہوئی ۔اس لکھاوٹ میں تھوڑی سی وہ کیفیت بھی ہے جو اندر کی موج کا پتہ دیتی ہے مگر تھوڑی سی بے پرواہی کے ساتھ موج کی بے پرواہی یا بے پرواہی کی موج ۔کوئی اورترکیب بھی ہو سکتی ہے مگر اس وقت تو اس روش کی داخلی موج اور اس کی تھوڑی سی بے پرواہی کے ساتھ یہی دکھائی دیتی ہے۔روش کا دائرہ بنتے بنتے رہ جاتا ہے اور کوئی شوشہ اسے نہ دائرہ بننے دیتا ہے اور نہ لفظ کو بلندی کی طرف مائل کرتا ہے۔نقطے کی تعداد چاہے جتنی ہو وہ کبھی واضح نہیں ہوتا۔حروف ایک دوسرے کے ساتھ گریزہ نہیں ہیں۔بہت کم کسی لفظ کو لکھ کر کاٹا ہے۔تاریخ خط کی پیشانی پر بھی ہے اور کہیں خط کے نیچے بھی۔لکیریں اتنی اسانی سے کھنچ جاتی ہیں کہ ان پر چندرن کی پینٹنگ کا گمان ہوتا ہے۔یہ وہ لکیریں ہیں جو لفظ کے ساتھ اور لفظ کے نیچے ہیں جو کچھ اور بھی کہتی ہیں۔لفظ افسانہ اتنا سین اور الف کے ساتھ گھوما ہوا ہے کہ اسے افسانہ ہی پڑھا جائے گا مگر وقفہ بھی یہاں موجود ہے۔لاہور دی ہاؤس کچھ اس طرح لکھا ہے کہ جیسے حروف بھی ادھر ادھر بیٹھے ہوئے لوگوں کا پتہ دے رہے ہوں ۔12 جنوری 1974 کا ایک خط ہے جو انہوں نے ٹی ہاؤس میں بیٹھ کر لکھا ہے۔خطوط ان متون کی طرح ہیں جنہیں ان کے تاریخی سیاق سے الگ کر کے نہیں دیکھا جا سکتا۔لیکن یہ خطوط اپنے تاریخی سیاق کے ساتھ کچھ ایسی فضا کے بھی حامل ہیں جو زمانی فاصلے کو عبور کر لیتی ہے۔زمانی فاصلہ تاریخ سے ہی اپنے سفر کا اغاز کرتا ہے لہذا لازمانیت میں بھی تاریخیت کا کوئی عنصر موجود ہے۔جن خطوط پر تاریخ درج نہیں ہے۔ انہیں بھی وقت کے ساتھ دیکھا اور پہچانا جا سکتا ہے۔
مجھے نہیں معلوم کہ انتظار حسین نے کسی اور کو اتنے خط لکھے ہوں۔شمی حنفی کے نامانتظار حسین کے خطوط ایک کتاب کی صورت میں الگ سے شائع ہوں گے۔
شمیم حنفی کے سینے میں لاہور کا دل بھڑکتا تھا اور انتظار حسین کے سینے میں ڈبائی دہلی کا دل دھڑکتا تھا۔ان خطوط کو پڑھتے ہوئے یہ دھڑکنیں محسوس کی جا سکتی ہیں۔
“آج تک دل کا تڑپنا اسی انداز میں ہے”۔ کلیم عاجز
سرور الہدی
نو دسمبر 2024
دہلی