حلب
محاذ جنگ؟ نہیں
یہ میرا شہر ہے
میرا گھر شہر کے مرکز میں ہے
اونچی فصیلوں اور وسیع و عریض دالانوں والا
معمار نے بولا تھا کہ یہاں موت بھی نہیں جھانک سکتی
موت تو نہیں آئی
مگر خوف نجانے کہاں سے در آیا ہے
خوف جو جانے کا نام نہیں لے رہا
میرا شہر دنیا کی توجہ کا مرکز ہے
شہ سرخیاں اخبارات کی ہوں کہ نشریاتی بلیٹن کی
خبر کی زینت میرا شہر ہی ہے
توجہ اسی پر ہے کیونکہ یہاں اب کسی کو اک دوسرے کی خبر نہیں رہی
گھر قید خانے ہیں
اونچی دیواریں بے پناہی کا اعلامیہ
کہتے ہیں کہ یہ شہر اپنی اونچی فصیلوں پر نازاں اور ناقابل تسخیر ہوا کرتا تھا
جب بدوی لشکروں نے اس کا مان توڑا
مگر، غنیم کی یلغار امان کی گود بن گئی
اس شہر کو اپنے ناقابل شکست ہونے کا مان ٹوٹنے پر فخر ہونے لگا
مگر آگے کا سفر بے امانی و بے پناہی کی پناہ میں گزرا
آج کی شب تک
کہ میری آٹھ سالہ بیٹی اور میں اس شہر بے شہر پناہ میں
اس اونچی فصیلوں والے زندان میں محصور ہو گئے ہیں
ہم پر شہر سے فرار، گھر سے فرار، خود سے فرار کے سب راستے بند کردیئے گئے ہیں
راستوں پر متحارب لشکر عقائد اور عزائم کی عظمت کے لئے برسر پیکار ہیں
ایک ہی زبان بولنے والے ایک ہی مٹی کے فرزند ماں کی کوکھ گرم انگاروں سے داغ رہے ہیں
ازلی دشمنوں اور دسیسہ کار حاسدوں کے توشہ خانوں میں دہکائے گئے انگاروں سے
ماں کا بدن رستے زخموں کا جہنم
سہمی ہوئی آنکھوں کا راکھ دان بن گیا ہے
اس راکھ دان میں میں اور میری بیٹی امن کی فاختائیں بنا اور فضا میں اڑا رہے ہیں
مگر فضاوں پر تو شہابیوں کی یلغار ہے
جیسے کسی بادشاہ کے گھر عروس خوش بخت کا استقبال ہو
مگر عروس خوش بخت کہاں ہے
لگتا ہے اونچی فصیلوں والے گھر میں آسمان سے اترے گی
کسی ٹوٹے ہوئے ستارے کے رتھ پر سوار
کسی توپ کے مقدس دہانے سے داغی جائے گی
یہ سہما ہوا گھر اجالوں سے بھر جائے گا
اس پُر فتن رات میں بھی
جس میں موت سے بہتر اب کوئی مہمان نہیں آ سکتا
لیکن جس دن استقبال کرنے والوں نے موت کا ستقبال کرنا سیکھ لیا
جنگ ہم سے ہار جائے گی