آغا گل آخری سفیر

یہ تحریر 105 مرتبہ دیکھی گئی

بچپن میں جب میں بے حد بیمار پڑ گیا بچنے کی امید نہ رہی تھی تو میرے والد اور چچا مجھے گھوڑے اور پھر کندھوں پہ اٹھائے پیر غائب کے پراسرار غاروں میں لے چلے، جہاں سے کچھ راستے قلات وسوراب کو نکلتے ہیں اور ایک راستہ وادی میں جا نکلتا ہے نا قابل عبور عمودی چٹانوں میں گھری ہوئی یہ وادی دنیا کی نگاہوں سے پوشیدہ رکھی جاتی جہاں آنا جانا ہی دشوار ہے پھر قبائلی ان راستوں میں سے کسی کو گزرنے کی اجازت ہی نہ دیتے، رد و کد بحث و مباحثہ، پکڑ دھکڑ ہوتی، بولٹ کشی بھی ہوتی، ما سوائے بیمار لاعلاج روحانی طور پر بیمار مریضوں کے دیگر افراد کا داخلہ منع تھا،چونے سے جڑے غیر تراشیدہ پتھروں سے بنی یہ ایک قدیم ترین عمارت تھی جس میں لکڑی کی بلیاں تھیں اور یہ بڑے بڑے شہتیر تھے، درمیان میں چرچ تھا دائیں بائیں دالان اور کمرے تھے، مجھے فادر پطرس کے سامنے پیش کیا گیا اس نے معائنہ کیا اور یہ حکم صادر کیا کہ مہینے بھر کے لیے اسے چھوڑنا پڑے گا، میرے بزرگ کچھ ہچکچائے تو مگر میری زندگی بچانے کی خاطر رضامند ہو گئے، مجھے اس پراسرار ہیبت ناک عمارت سے خوف آ رہا تھا، باہر سے شور مچاتی ہواؤں کا تسلط تھا، فادر کے اشارے پر خادم نے کھانا لگا دیا، چائے پلائی اتنے میں اس کی بیوی جین خواتین مریضوں کے حصے سے چلی آئی، وہ ایک نہایت ہی حسین اور مہربان ڈاکٹر تھی، اس نے مجھے دیکھتے ہی کہا:
“ارے یہ تو بالکل ٹھیک ہو جائے گا، یوں چٹانوں پہ دوڑتا پھرے گا کہ کوئی اسے پکڑ ہی نہ پائے گا”.
وہ دونوں مجھے اتنے اچھے لگے، اپنے اپنے سے جیسے کہ میں انہیں صدیوں سے جانتا ہوں یا شاید میں اسی عمارت اسی وادی کا باسی ہوں یا شاید انہی کا بیٹا ہوں کیونکہ وہ مجھے بیٹا بیٹا کہہ کر پکار رہے تھے، میں جلد ہی ان سے گھل مل گیا، جین نے چمچ سے مجھے دلیہ کھلایا تو بہت عرصے بعد جسم میں طاقت کا احساس ہوا. فادر پطرس بھی گورا چٹا سرخ و سفید اور قدآور شخص تھا، اس کےگلے میں لوہے کی زنجیر میں آویزاں صلیب جھولتی رہتی، عمارت کے اوپر بھی ایک بہت بڑی سنگ سیاہ کی بنی ہوئی صلیب پیوست تھی، ان کے خادم بھی مہربان اور شفیق تھے، بس بچھے ہی جاتے، وہ دوائیں پلاتے، دعائیں دیتے، کھانا کھلاتے ، عمارت میں محبت ہی محبت تھی، شام کا کھانا کھا کر انہوں نے دعا کی اور جین نے خواہش ظاہر کی کہ وہ مجھے اپنی خواب گاہ میں سلانا چاہتی ہے، نصف دن میں ہی اسے میں اپنا چکا تھا، شاید وہ میری ماں سے بھی بڑھ کے مہربان تھی، وہیں میرا بستر لگا دیا گیا، رات میں میری حالت بگڑی تو اس نے مجھے فورا سنبھالا اور انجیکشن لگایا، ماتھے پہ گیلا رومال رکھا، مجھے نیند آئی.
میں صبح جاگا تو حیران ہو گیا کہ وہ مجھ پر جھکی ہوئی میرا ماتھا دبا رہی ہے، میں بے اختیار اس سے لپٹ کر رونے لگا، شاید احساس بے بسی سے، بیماری کی شدت یا اس کی شفقت سے، وہ مجھے ساتھ لگا کر انجانی زبانوں میں دعائیں مانگنے لگی، اللہ سے میرے لیے صحت اور زندگی مانگنے لگی،ناشتے کے بعد میں بخوشی ان کے پاس رہنے کے لیے آمادہ ہو گیا، جس کے باعث میرے والد اور چچا بہت خوش ہوئے، میری سنبھلی ہوئی حالت دیکھ کر انہیں اطمینان ہوا، فادر پطرس نے اشارتاً بتلایا کہ وہ مجھے اتنی تاخیر سے لائے ہیں کہ اب صحت یابی میں کافی وقت لگے گا لہذا وہ پیر غائب کے ملنگ سے دریافت کرتے رہیں، جب وہ تصدیق کرے تب ہی بچے کو آ کر لے جائیں.
میں چند ہی روز میں اٹھنے بیٹھنے کے قابل ہو گیا، دو ہفتوں میں ہی چلنے پھرنے بھی لگا لیکن میرا بستر جین کے ہی کمرے میں رہا.

جین نے بتلایا کہ اس دنیا میں سبھی چیزیں دائرے میں گھومتی ہیں، سورج چاند، ستارے، پودے، درخت اور زندگی بھی.. درخت زمین سے طاقت پانی حاصل کر کے سایہ اور ایندھن دیتے ہیں، پھل دیتے ہیں، انسان بھی دیگر انسانوں کو فیض پہنچائے، زندگی کو حسین بنائے دکھوں کا مداوا کرے تو اسی دائرے کے قانون کے تحت وہ گھوم کر خدا کے پاس سرخرو ہو جائے گا، اس کی میٹھی رسیلی باتوں سے ایک نئی روح مجھ میں بیدار ہوگئی اور میں علاج کروانے کے علاوہ خود بھی مریضوں کی خدمت کرنے لگا، کوڑھ زدہ مریض جن کے زخموں سے پیپ بہتی، برص کے شکار خون کھانستے مریضوں سے کراہیت آنا ختم ہوگئی، میں انہیں پانی پلاتا، جین کے ساتھ ساتھ گھومتا پھرتا انہیں دوائیں پلاتا، جین نے ہی بتلایا کہ جن کی روح مضبوط ہو انہیں کسی کی بیماری نہیں لگتی ورنہ تو مدر ٹریسا کو بھی وہی مہلک بیماریاں لگ جاتیں جن کا وہ علاج کیا کرتی تھی، میں ضد کر کے جین سے پیالہ یا گلاس لے کر خود ہی خدمت کرنے لگتا، میرے اندر ایک نامعلوم سی خوشی در آئی تھی، ان کی تاکید تھی کہ ہر مریض اپنے عقیدے کے مطابق خالق کی عبادت کرے، اظہار محبت کے لیے کوئی پابندی بھی تو نہیں ہے، فادر پطرس کے ساتھ ساتھ میں کام کرتا رہتا، وادی میں بکثرت کاشت ہوتی، مویشی بھی پال رکھے تھے، ہر لحاظ سے وہ خود کفیل تھے سوائے ادوایات کے جو جانے کون لوگ پہنچا جایا کرتے.
ایک ماہ کیا تین ماہ گزر گئے مجھے کچھ پتہ نہیں چلا میں مکمل طور پر صحت مند ہو چکا تھا، تین ماہ بعد بزرگ لینے آئے تو میں بھی جین سے لپٹ کر رونے لگا میں جانا نہیں چاہتا تھا مگر مجھے جانا ہی تھا، فادر پطرس نے مجھے گلے لگاتے ہوئے نصیحت کی کہ جو کچھ میں نے یہاں سیکھا ہے ویسا ہی میں باہر کی دنیا میں عمل کروں، خلق خدا کا خیال رکھوں اور اس وادی کا اس چرچ کا کسی سے ذکر نہ کروں، ٹوٹے ہوئے دل کے ساتھ میں بزرگوں کے ساتھ واپس ہو لیا پھر اسکول کالج یونیورسٹی سے ہوتا ہوا میں عملی زندگی میں شامل ہو گیا، کبھی کبھار مجھے فادر اور جین کی یاد آتی، اب مجھے اندازہ تھا کہ انہوں نے مجھے نئی زندگی دلوائی اپنی دواؤں یا شاید اپنی روحانی طاقت سے یا کہ دونوں سے.

ایک بار مجھے بلوچستان کے صحراؤں میں ایک مسیحی راہب ملا جو شاید اس خانقاہ میں مقیم تھا جو شاید تھوما رسول کے عہد میں بنی ہو، ساسانی بادشاہ شاپور اول جو مسیحی عقیدے کا مخالف تھا کہ یہ سانپ کو بھی خدا کی مخلوق قرار دیتے ہیں اور مردے زمین میں دفن کرتے ہیں لہذا جب سے مسیحی خاندان بلوچستان نقل مکانی کر گئے، جسے اس دور میں قیہقان گدروشیہ، سیویستان جیسے مختلف ناموں سے پکارا جاتا تھا، صرف ایک نام اس علاقے کے لیے مستعمل نہ تھا، اسی راہب نے مجھے بتلایا کہ خیال کی لہریں چلتی ہیں، محبت کی لہریں نفرت سے کہیں تیز سفر کرتی ہیں، تمہاری محبت کا فادر پطرس کو احساس ہے، اس کی بیوی جین چل بسی ہے، وہ تم سے ملنے کا متمنی ہے، یوں تو وہ مہمان نواز ہے مگر بہت سے لوگ اسے ملنے آتے ہیں تو طبی خدمات کیسے انجام دے، عبادات کیسے کرے.

بات معقول تھی، مجھے وہ پہاڑ، وہ غار تو یاد تھا اور اب تو ایک معقول جواز بھی تھا، میں جیپ میں پیر غائب کے مزار پہ پہنچا، وہاں نسل در نسل مجاوری کا سلسلہ تھا، مجاور نے یوں تو مہمان نوازی کی، خوب دیکھ بھال کی مگر فادر پطرس اور اس وادی کے ذکر سے لا تعلق ہو گیا، یہ بڑا غار آگے بے شمار غاروں میں جا نکلتا گویا میں بھول بھلیوں میں ساری عمر بھٹکتا رہتا، واپسی کی راہ بھی نہ ملتی، میرے تعارف اور ثبوت کے بعد اس کا دل پسیج گیا، اس نے اگلے ہی روز ایک ملنگ کو میرے ساتھ روانہ کر دیا، ملنگ بڑا ہی سخت جان انسان تھا، ڈگ بھرتا غاروں میں چلتا رہا، میں اس کے تعاقب میں تقریبا دوڑتا ہی رہا. غار در غار، کبھی اترائی کبھی چڑھائی دم لینے کو بھی وہ نہ رکا مگر سہ پہر میں اسی وادی میں ہم آ نکلے، یہاں سب کچھ ویسا ہی تھا میرے بچپن کا دیکھا بھالا ماحول.

فادر پطرس بوڑھا ہو چکا تھا، باد سموم نے اس کا اس قدر گورا رنگ جھلسا دیا تھا، سفید بال اور کمزور جسم… دیوتاؤں جیسا خوبصورت انسان انجام کی جانب بڑھ چکا تھا، میں فادر سے لپٹ کر جانے کیوں رونے لگا، شاید جین سے ابدی جدائی کے باعث، شاید اپنا حسین بچپن کھو جانے کے باعث یا شاید اس لیے کہ اس بھائیں بھائیں کرتی وادی میں فادر پطرس بالکل ہی اکیلا رہ گیا تھا. فادر نے شفقت سے مجھے تسلی دی پھر کھانے اور چائے سے تواضع کی، جین کا کمرہ مریضوں سے بھرا پڑا تھا، فادر حسب معمول مریضوں کی دیکھ بھال کر رہا تھا، خوش دلی سے انہیں حوصلہ دلاتا، ان کی آہ و بکا کو مسکراہٹوں میں بدل دیتا، رات کے کھانے کے بعد اس کے کمرے میں میرے لیے بھی بستر لگوا دیا، لالٹینوں کی روشنیاں پہلے سے لرزاں لرزاں ماحول کو مزید خوابناک بنائے جا رہی تھیں، فادر نے بتلایا کہ وہ میری محبت کی لہریں اور اشتیاق ہمیشہ ہی محسوس کرتا رہا، اس نے بتلایا کہ وہ مجھے ایک پراسرار کہانی سنانا چاہتا ہے جس سے میری نیند ہی اڑ گئی.

فادر نے متی کی انجیل اٹھائی اور پڑھنا شروع کیا:

“جب یسوع ہیرو دیس بادشاہ کے زمانے میں یہودیہ کے بیت الحم میں پیدا ہوا تو دیکھو کئی مجوسی پورب سے یشروشلم میں یہ کہتے ہوئے آئے کہ یہودیوں کا بادشاہ جو پیدا ہوا ہے وہ کہاں ہے؟ کیونکہ پورب میں اس کا ستارہ دیکھ کر….”

میں نے ٹوک دیا، فادر! معذرت چاہتا ہوں قطع کلامی معاف، اس میں بھلا کہاں پر اسراریت ہے؟

فادر نے ہاتھ کے اشارے سے مجھے روکا.

” وہ بادشاہ کی بات سن کر روانہ ہوئے اور دیکھو جو ستارہ انہوں نے پورب میں دیکھا تھا وہ ان کے آگے آگے چلا، یہاں تک کہ اس جگہ کے اوپر ٹھہر گیا جہاں وہ بچہ تھا، وہ ستارے کو دیکھ کر نہایت خوش ہوئے اور اس گھر میں پہنچ کر بچے کو اس کی ماں مریم کے پاس دیکھا “.

میں نے بولنا چاہا تو فادر کا ہاتھ بلند ہوا.
” اور اپنے پاس ڈبے کھول کر سونا اور لبان اور مر اس کو نظر کیا اور ہیرو دیس کے پاس پھر نہ جانے کی ہدایت خوب پا کر دوسری راہ سے اپنے ملک کو روانہ ہو گئے.”

فادر مسکرایا اس نے انجیل بند کر دی،” اب بولو”؟

وہ لوگ کون تھے فادر؟

مسکراہٹ فادر کی آنکھوں میں بسی رہتی،” میری رائے میں وہ مشرق کے براہوی تھے،ان کے لیے MAGI کا لفظ آیا جس کا ترجمہ Wiseman یعنی عقلمند آدمی بنتا ہے اور مجوسی تو ہرگز نہیں بنتا, MAGI براہوی زبان کے دو لفظوں سے بنا ہے, بمعنی بڑا کلاں، بزرگ سردار اورجائی بمعنی سچ بات، MAGI یعنی سچے بزرگ, چونکہ بے آب وگیاہ کوہستانوں میں رہتے تھے، انہیں برز کوہی کہا جاتا تھا جو کہ کثرت استعمال سے براہوی بن گیا، گاتھا میں اس کا مطلب قابل احترام ہے، مسیحی دنیا نے یہ قابل قدر جذبہ صدیوں یاد رکھا، براہوی پلٹ کر ہیرودیس کے پاس نہ گئے بلکہ انجانی راہوں ویران گزرگاہوں سے اپنے وطن لوٹ گئے”.

مجھ پہ حیرتوں کا پہاڑ ٹوٹ پڑا،” تو بات کھل کر کیوں نہیں کہی گئی”؟

فادر حسب عادت مسکرا رہا تھا، “یہ خواص کی زبان ہے
البرز پانچ سو ساٹھ میل طویل ایک پہاڑ ہے ،کہتے ہیں کہ زرتشت نے چالیس روز البرز سلام کوہ میں قیام کیا، واپسی پہ ‘اوستا’ لے آیا، یہ باتیں تمثیلی انداز میں سامنے آتی ہیں، ان کا مطلب کھوجنا پڑتا ہے، جیسا کہ یسوع مسیح نے فرمایا کہ” میں ان سے تمثیلوں میں باتیں کرتا ہوں.”
یہ پہاڑ چاند یا کمان جیسا ہے جس کی الگ سے معنویت ہے، نوشیروان بھی ظالم تھا، براہوی روحانیت اور اخلاقی قدروں کے خلاف تھا، اس نے بھرپور عسکری طاقت ان کے خلاف جھونک دی جس کے باعث وہ مار آپ، رود باد گرم، سیل سیاہ، کنب کے کوہستانوں میں سوراب کے مغرب اور قلات کے جنوب مغربی علاقوں میں جا آباد ہوئے، قلات اور سیوی کے سیوا حکمرانوں نے ان کا استقبال کیا ورنہ تو نوشیروان اسی ہزار نفوس کا قاتل تھا، چچ براہمن خاندان نے سیوا خاندان سے حکومت چھین لی، یہ 660 ءکی بات ہے، 712 ءمیں عربوں نے غلبہ پایا، 977ء میں غزنوی چھا گئے، 1225ء میں التمش نے بلوچستان کے کچھ علاقوں پر قبضہ کر لیا، مسیحی بھی بادشاہوں کے ہاتھوں زک اٹھاتے رہے، براہوی بھی ظالم بادشاہوں سے جنگ کرتے رہے، انہوں نے چھاپہ مار دستے بنائے جن کا نعرہ تھا ہلبو، خلبو یعنی پکڑو مارو یعنی چھاپہ مار جنگ کرو، پکڑو مارو اور گھات لگانے کے لیے نکل جاؤ.

جلتی جھاڑیاں عالمگیر کلیساء persecution سے گزرتی ہیں مگر جل کر ختم نہیں ہوتیں، بلوچستان پر آفات نازل ہو رہی ہیں، ظالم خون خوار خون آشام حاکم ہیں جانے کس قدر آفات آئیں گی جبکہ خدا نے مصریوں پر فقط نو آفات ہی نازل کیں اور پھر یوں ہوا کہ براہوی اپنے علاقوں میں مستحکم ہو گئے، حملہ آوروں کو پے در پے شکستیں دیے گئے، براہوی سلطنت میر میر و ثانی نے 1600ء میں قائم کی تو پوپ نے فیصلہ کیا کہ ان کی سابقہ دانشوری کے پیش نظر براہوی ریاست میں امن و محبت کے سفیر بھیجے جائیں، براہوی سفیر تو سونا، لبان اور مر لائے تھے، ہمارے سفیر طبی خدمات انجام دیں لہذا یہ سلسلہ جاری ہوا، تیس برس ہمارے سفیر یہاں کام کرتے اور ساٹھ برس کی عمر میں خدمات انجام دے کر واپس چلے جاتے ،براہوی مہ جائی ہم پہ جو احسان کر گئے اسے ہم نے ہمیشہ یاد رکھا، مجھے بھی ساٹھ برس کی عمر میں یہاں سے جانا تھا لیکن جین کو اکیلا چھوڑ کر نہیں جا سکتا، بہت روز ہم نے سنگ سیاہ کو تراش تراش کر صلیب بنائی اور اس کی قبر پر لگا دی، ساتھ کی جگہ میرے لیے ہے اس پہ تم صلیب لگا دینا”.

فادر نیم تاریک کونے سے صلیب اٹھا لایا.

میں بڑبڑا اٹھا” مگر کون جانے کب اسے جانا ہے”؟
فادر کی ازلی ابدی مسکراہٹ نہ کملائی،” کچھ لوگ جان لیتے ہیں”.
میرے جسم میں سرد لہر سی دوڑی”.
آپ کے بعد کون آئے گا؟

ایک طویل سکوت کے بعد اس نے جواب دیا جیسے وہ مناسب الفاظ چھانٹ رہا ہو، “اب کوئی نہیں آئے گا، سفیر حکومتوں میں آیا کرتے ہیں کھلے قتل عام، اغواہ ہوتے انسانوں، مسخ شدہ لاشوں میں سفیر کہاں آتے ہیں ۔ پنجابیوں کا قتل، بیس برس ہزارہ قوم کا قتل ، ہزاروں جبری گمشدہ زن و مرد، توتک کی 380 بے جان جسموں کی اجتماعی قبر ۔ وہی تاج برطانیہ کے خونخوار وطن دشمن تلنگے جنہوں نے اپنی دھرتی ماں کا دو سو برس بلاد کار کیا ۔ برطانوی بادشاہ کو king سے emperor بنا دیا ۔ ہر جانب یہی یہودہ اسکریوتی براجتے پھرتے ہیں ۔ بیٹا! سفیر اور پھڈو ، گدھ الگ الگ ہوتے ہیں، یہاں تو انسانی جسم نچوڑنے والے گدھ قابض ہو چکے ہیں”.

مجھے ایک تکلیف دہ مستقبل نے ہراساں کر دیا،
” پھر ہمارا کیا بنے گا”؟
فادر نے دیوار پہ لگی تختی کی جانب اشارہ کیا جس پر یرمیاہ رسول کا قول لکھا تھا:
” اے خداوند تو مجھے شفا بخشے گا، میں شفا پاؤں تو ہی بچائے گا، تو ہی بچوں گا کیونکہ تو میرا فخر ہے”.

مجھے اب تک بے یقینی نے گھیر رکھا تھا.
” آپ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ وہ یہیں سے گئے تھے” ؟

فادر کو یقین کامل تھا.
” تم کیسے ثابت کر سکتے ہو کیونکہ تحریر ہے کہ:
“They departed into their own country other way”.

” کسی ملک کا نام نہیں ملتا محض مشرق مرقوم ہے، ان کے مشرق میں بلوچستان ہی تھا”.
پھر وہ اٹھ آ بیٹھا، “چلو اپنے اپنے انداز میں سے عبادت کرتے ہیں”.
” جاگو اور دعا کرو تاکہ آزمائش میں نہ پڑو، روح تو مستعد ہے مگر جسم کمزور ہے”.
اس ہدایت نے مجھے طاقت بخشی، باہر جا کر وضو بنایا، عشاء کی نماز ادا کی اور یوں گرا بستر پہ کہ دنیا و مافیہا سے غافل ہو گیا”.
دن چڑھے مجھے آوازیں دے دے کر جگایا گیا تو ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھا، سبھی اشک فشاں تھے کہ کوئی پکارا
” چلو تمہارا انتظار ہو رہا ہے”.
مجھے سخت ندامت ہوئی کہ ایسے محنتی انسانوں میں دن بھر سوتا ہی رہا.

” کہاں جانا ہے”؟ میں نے سوال کیا تو انہوں نے صحن کی جانب اشارہ کیا جہاں بہت سے غمزدہ لوگ فادر پطرس کا تابوت گھیرے رو رہے تھے، عورتیں آہ و فغاں اور سینہ کوبی کر رہی تھیں، مجھ پہ برق سی کوند گئ، میں لڑکھڑا کر رہ گیا.
اتنے بہت سے لوگوں کو اکیلا تنہا بے آسرا چھوڑ کر محبتوں کا سفیر اپنے شہنشاہ کے دربار میں جا چکا تھا اور وہ بتلاتا گیا کہ آخری سفیر تھا.

آغآ گل کی دیگر تحریریں