آسماں ٹوٹتاہے جب دِل پر‎

یہ تحریر 141 مرتبہ دیکھی گئی

غالبًا ماگھ کا مہینا تھا‎
چھاجوں پانی برس رہا تھا‎
ہڑک فلم بینی کی زورآورتھی‎
کھیس ،چھتری ، نہ کوئی برساتی‎
ایک ناکارہ سائیکل‎
چَھن چھَن وار کا دِن‎
پی ٹی وی پر فیچرفلم لگنے ہی والی تھی‎
کیچڑ،گھُپ اندھیرا‎
گویڑ سے کُنڈی کھٹکھٹائی‎
تو خالہ کی آواز آئی‎
ماہینؔ دیکھنا !‏‎
پپّوؔ ہوگا!‏‎
اُس نے کہا تھا‎
فلم لگی تو ضرور آؤں گا‎
وہی ہے ناں ؟‎
خالہ !‏‎
‏”ماں صدقے !“‏‎
‏ ”بچّے آج توبارش نے حد کر دی ہے“‏‎
‏”زرینہ کیا کررہی تھی؟“‏‎
‏”انگیٹھی کے پاس آؤ !“‏‎
وہ خالہ ۔۔۔‎
مَیں۔۔۔۔‎
‏”پپّوبیٹھوتو !“‏‎
کپڑے گیلے تھے‎
ہونٹ نیلے تھے‎
آنکھ میں اِک چمک تھی‎
کانپ رہا تھا بدن‎
جانے کیسے شال اُٹھا کر‎
منہ پُونچھا ‏‎
حواس تھوڑے بحال ہوئے تو پتہ چلا‎
تم اِک تولیہ ہاتھ میں لیے ‏‎
خالہ کے برابر کھڑی تھیں‎
شرمندہ تو ہوا مَیں‎
مگرتمھاری آنکھوں میں کوئی سوال تھا ‏‎
نہ شرارت نہ طعنہ‎
وہی وقار،وہی سیرچشمی،بلا‎ ‎کا ٹھہراؤ‎
جس پہ خالو کی رُوح جھوم اُٹھتی ہوگی‎
خالہ کا چُلبلاپن اُس رات بھی تھا عروج پر‎
گرماگرم پھُلکے تھے‎
بَڑیوں کا سالن اورپِیوسی کی کھیر‎
دھیان اُچٹناہی تھافلم سے‎
مگر اُس دِن دارچینی ،الائچی کی مہک‎
اِک سلیقہ شعارکا فن تھا‎
وضع داری تھی اور کچھ بھی نہ تھا‎
آسماں ٹوٹتاہے جب دِل پر‎
‏ ذہن میں ا یک بات آتی ہے‎
‏ دارچینی ،الائچی کی مہک‎
کوئی بے ربط سی علامت تھی؟‎
زیست سے بامزہ تعلّق کی