غالبًا ماگھ کا مہینا تھا
چھاجوں پانی برس رہا تھا
ہڑک فلم بینی کی زورآورتھی
کھیس ،چھتری ، نہ کوئی برساتی
ایک ناکارہ سائیکل
چَھن چھَن وار کا دِن
پی ٹی وی پر فیچرفلم لگنے ہی والی تھی
کیچڑ،گھُپ اندھیرا
گویڑ سے کُنڈی کھٹکھٹائی
تو خالہ کی آواز آئی
ماہینؔ دیکھنا !
پپّوؔ ہوگا!
اُس نے کہا تھا
فلم لگی تو ضرور آؤں گا
وہی ہے ناں ؟
خالہ !
”ماں صدقے !“
”بچّے آج توبارش نے حد کر دی ہے“
”زرینہ کیا کررہی تھی؟“
”انگیٹھی کے پاس آؤ !“
وہ خالہ ۔۔۔
مَیں۔۔۔۔
”پپّوبیٹھوتو !“
کپڑے گیلے تھے
ہونٹ نیلے تھے
آنکھ میں اِک چمک تھی
کانپ رہا تھا بدن
جانے کیسے شال اُٹھا کر
منہ پُونچھا
حواس تھوڑے بحال ہوئے تو پتہ چلا
تم اِک تولیہ ہاتھ میں لیے
خالہ کے برابر کھڑی تھیں
شرمندہ تو ہوا مَیں
مگرتمھاری آنکھوں میں کوئی سوال تھا
نہ شرارت نہ طعنہ
وہی وقار،وہی سیرچشمی،بلا کا ٹھہراؤ
جس پہ خالو کی رُوح جھوم اُٹھتی ہوگی
خالہ کا چُلبلاپن اُس رات بھی تھا عروج پر
گرماگرم پھُلکے تھے
بَڑیوں کا سالن اورپِیوسی کی کھیر
دھیان اُچٹناہی تھافلم سے
مگر اُس دِن دارچینی ،الائچی کی مہک
اِک سلیقہ شعارکا فن تھا
وضع داری تھی اور کچھ بھی نہ تھا
آسماں ٹوٹتاہے جب دِل پر
ذہن میں ا یک بات آتی ہے
دارچینی ،الائچی کی مہک
کوئی بے ربط سی علامت تھی؟
زیست سے بامزہ تعلّق کی
آسماں ٹوٹتاہے جب دِل پر
یہ تحریر 141 مرتبہ دیکھی گئی