گُرگِ شب

یہ تحریر 3984 مرتبہ دیکھی گئی

یہ بات کہ ایک الزام، جس کی تصدیق یا تردید نا ممکن معلوم ہوتی ہے، کسی فرد کی زندگی میں اتنا زہر گھول سکتا ہے کہ اس کے لیے راحت کا سانس لینامشکل ہو جائے، انہونی نہیں۔ سب کے ساتھ تو یہ نہیں ہوتا لیکن ہزار میں دس پندرہ آدمی ایسے ضرور مل جائیں گے جنہیں، یوں کہیے، کسی جھوٹے سچے الزام نے مصلوب کر رکھا ہو۔ وہ زندہ رہتے ہیں لیکن انہیں صلیب سے اُتارنے والا کوئی ہم درد نہیں ملتا اور مل بھی نہیں سکتا کیوں کہ یہ مصلوبیت ظاہر میں نہیں، باطن میں ہے جس تک اپنے سوا کسی اور کی رسائی خیالِ خام ہے۔ انجامِ کار، بے سود ہاتھ پیر مارنے کے بعد، زندگی دیوانگی کی طرف ایک تکلیف دہ سفر بن جاتی ہے۔ اکرام اللہ کا ناول ”گرگِ شب“ ایک ایسے ہی فرد کی روداد ہے جسے بڑی ہنر مندی سے بیان کیا گیا ہے۔ واقعات کی بنت میں کوئی جھول نظر نہیں آتا۔ مرکزی کردار کو لڑکپن ہی میں باور کرایا جاتا ہے کہ وہ حلالی نہیں حرامی ہے؛ اور حرام کی نوعیت بھی ایسی ہے جو معاشرے کو بالکل قبول نہیں۔ جب یہ ناول پہلے پہل شائع ہوا تھا تو پڑھنے والوں کو شاید اس طرح کی ”جراتِ رندانہ“ گراں گزری ہو۔ لیکن آج، چالیس سال بعد، جب پاکستان میں اخلاقی پستی خطرے کے نشان سے کہیں اوپر پہنچ گئی ہے، (پستی کی اونچائی بھی عجیب اور پرتضاد ہیبت ناکی کی حامل ہے) جہاں بچوں اور بچیوں کو بدفعلی اور تعذیب کا نشانہ بنا کر قتل کرنا اور معاشرے میں زنا بالجبر اور غارت گری معمول بن چکا ہے، یہ ناول ذرا بھی بھیانک معلوم نہیں ہوتا۔ ناول میں جس فرد کا احوال ہے وہ اندر سے ٹوٹ پھوٹ چکا ہے لیکن جو انتقام لیتا ہے خود سے لیتا ہے، کسی اور کو ضرر نہیں پہنچاتا۔ اس سے اتنا تو ظاہر ہوتا ہے کہ اس میں انسانیت کی رمق باقی ہے۔ مرکزی کردار نے اس خاندان اور گاﺅں کو ہمیشہ کے لیے خیرباد کہہ دیا جہاں اسے ہر وقت کچھ کچوکوں کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔ مکمل قطع تعلق کے بعد اس نے اپنا نام بدل لیا اور ایک بڑے شہر میں جا کر کامیاب کاروباری بن گیا۔ ایک بات کا اسے خیال نہ رہا، جیسے ہم میں سے بہت سوں کو خیال نہیں رہتا، کہ آپ ان تمام افراد سے پیچھا چھڑا سکتے ہیں جن کی صرف موجودگی ہی طعنہ ثابت ہوتی ہے، اس جگہ کو ہمیشہ کے لیے چھوڑ سکتے ہیں جس سے ناخوشگوار یادیں وابستہ ہوں، مگر اپنے آپ سے، اپنے اندر پلتے اور پھیلتے عذاب سے چھٹکارا نہیں پا سکتے۔ دنیا میں ہر آسائش، ہر رہائش، ہر حیثیت کو تجنا ممکن ہے مگر اپنے آپ سے گلو خلاصی نا ممکن ہے۔ اپنی کاروباری کامیابی اور خوش حالی کے باوجود مرکزی کردار کو چین کا سانس لینا نصیب نہیں ہوتا۔ اسے پتا چلات ہے کہ شہر میں کوئی اس کا نہیں، وہ کسی کا نہیں۔ بیگانہ وار جی رہا ہے۔ اس کے لیے یہ بھی ممکن نہیں رہا کہ وہ کسی سے جنسی طور پر ذرا دیر کے لیے تعلق پیدا کر سکے۔ شاید لاشعوری سطح پر جنسی عمل سے بھی، جس کے نتیجے میں اس کی ذات پر کلنک کا ٹھپا لگا ہے، اسے کراہت آتی ہے۔ وہ شراب کا دھتی ہو جاتا ہے۔ بسیارنوشی سے مراد غم غلط کرنا نہیں، اپنی شناخت غلط کرنا ہے۔کلب میں ایک خاتون اس سے کہتی ہے، ”آپ تو اس طرح پیتے ہیں جیسے اپنے آپ سے کوئی بدلہ چکا رہے ہیں۔“ معمول سے ہٹی ہوئی یہ کوشیں بیماری اور دیوانگی کی راہ ہموار کرتی ہیں۔ اسے ڈراو ¿ نے خواب دکھائی دیتے ہیں۔ ان خوابوں کے بیان میں مصنف نے خاصی طباعی کا ثبوت دیا ہے۔ مرکزی کردار ان خوابوں کی معنویت کو ٹھیک طرح سمجھ نہیں پاتا۔ یہ تطہیر کا عمل ہے جو اس کے باطن میں جمع آڑ کباڑ کو بہالے جانے یا ٹھکانے لگانے سے سروکار رکھتا ہے۔ کسی ان جانی سمت سے اسے بچانے کی آخری کوشش۔ ان خوابوں سے خوف زدہ ہونے کے بجائے اگر انہیں صبر سے برداشت کرتا رہتا تو بالآخر شاید نجات کی کوئی صورت نکل آتی۔ وہ اپنے آپ سے، اپنے ماضی سے، ماضی کے لوٹ آنے سے خوف زدہ ہے اور خود کو بچانے سے قاصر۔ وہ ایک کھلونا بن گیا ہے جس میں حالات کے ستم نے چابی بھر دی ہے اور وہ چکر پر چکر کھائے جا رہا ہے۔ آخر میں اسے ایک واہمے میں لگتا ہے کہ کمرے میں کہیں سے بہت سی مکھیاں گھس آئی ہیں۔ ایک ایک کر کے وہ مکھیاں باہر نکل گئیں۔ ایک مکھی پھر بھی رہ گئی اور اسے ستانے لگی۔ بمشکل تمام اس نے اس مکھی کو مار ڈالا۔ ”یہ مکھی تو میں نے ماری لیکن وہ مکھی جس کی بھنبھناہٹ اب بھی ذہن کے اندرستاتی رہتی ہے اس کا کیا کیا جائے؟“ اس مکھی کا جیتے جی کچھ بگاڑا نہیں جا سکتا۔ اُردو میں لکھے جانے والے مختصر ناولوں میں ”گرگِ شب“ منفرد حیثیت رکھتا ہے۔ اسے پڑھنا خوشگوار تجربہ نہ سہی۔ زندگی میں خوشگوار لمحے کم ہی آتے ہیں۔ اکرام اللہ کا ناول ہمیں یہ سوچنے پر مجبور کرتا ہے کہ ہم سب میں ہمدردی اور ایک دوسرے کو سمجھنے کی کتنی کمی ہے اور دوسرے لوگ عذاب کیوں ثابت ہوتے ہیں۔ دوزخ بھی ہو گا لیکن ناول کے مرکزی کردار نے تو زندگی ہی میں دوزخ کا مزہ چکھ لیا اور غضب یہ کہ گناہ گار بھی نہیں۔